عبادات وعقائد پرغیر آئینی پابندیاں ریڈ لائن : ماتمی احتجاج کی کال پر لبیک کہتے ہیں سندھ بھرمیں بھرپور احتجاج ہوگا، صدر ٹی این ایف جے سندھ علامہ اصغر نقوی کی پریس کانفرنس
شیعہ حقوق کے حصول کیلئے27 فروری کو بھرپور احتجاج کریں گے،کراچی میں انچولی سے شاہراہ پاکستان تک ماتمی احتجاج کیا جائے گا
مکتبِ تشیع کے عقائد اور حقوق پر ڈاکہ زنی کیخلاف قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی النجفی کے حکم پر ملک گیر ماتمی احتجاج کے موقع پر سندھ بھرپور احتجاج کریں گے
تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ صوبہ سندھ کے صدر علامہ سید اصغر علی نقوی کی دیگر علمائے کرام کے ساتھ کرچی پریس کلب میں پریس کانفرنس
کراچی (ولایت نیوز ) تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ صوبہ سندھ کے صدر علامہ سید اصغر علی نقوی نے کراچی پریس کلب میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مکتب تشیع کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کیخلاف 25 رجب کو قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی کی کال پرصوبہ سندھ میں بھرپور پرامن ماتمی احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
اس موقع پر ٹی این ایف جے سندھ کے ناظم الامور انجینئر جاوید علی مٹھانی‘ علامہ سید علی عرفان عابدی‘ مخدوم سید سبطِ حسن نقوی‘ عمار یاسر علوی‘ علامہ ثقلین حیدر جمیل اور سید بدر علی ترمذی شامل تھے۔
علامہ سید اصغر علی نقوی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں یکساں نصاب تعلیم ہر شہری کا دیرینہ خواب اور استحکام پاکستان کی کلید ہے لیکن تمام مکاتب فکر کیلئے قابل قبول اور مشترکات پر مبنی نصاب کی تیاری کے بجائے جو کورس قومی یکساں نصاب کے نام پر تشکیل دیا گیا ہے اس میں تعصب اور فرقہ واریت جابجا جھلکتی نظر آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس نصاب میں قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف درودِپاک میں تبدیلی کی گئی ہے‘ نبیؐ پاک نے اہلبیتؑ اطہار کو سرچشمہِ ہدایت اور سفینہِ نجات قرار دیا لیکن نصاب میں ان کے ذکر سے حد درجہ اجتناب کیا گیا ہے۔ شیعہ سنی برادران کے نزدیک لائق احترام آئمہ اہلبیتؑ کا کوئی ذکر نصاب میں شامل نہیں کیا گیا جبکہ اسلام کو ملوکیت کی جانب دھکیلنے والے متنازعہ کرداروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی تاریخی واقعات ہوں‘ مذہبی عقائد کا بیان ہو‘ مشاہیر اسلام کا ذکر ہو یا اولیائے کرام کا تذکرہ سب میں فرقہ وارانہ سوچ اور تعصب کاکھلم کھلا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس فرقہ وارانہ نصاب میں بعض مقامات پر دیگر مکاتب فکر کے عقائد و نظریات کی تردید بھی کی گئی ہے جسے پڑھنے کے بعدطلاب کے اندر ایک مخصوص فکر کے علاوہ دیگر کو غلط تصورکرنیوالی تکفیری سوچ ہی پروان چڑھے گی اور معاشرہ اسی شدت پسندی کی جانب بڑھے گا جس سے چھٹکارے کیلئے لاتعداد قربانیاں دی جاچکی ہیں۔ لہٰذا ہمارے لئے ایسا متعصبانہ نصاب کسی طور قابل قبول نہیں ہے گزشتہ جون میں قومی اسمبلی اور نومبر میں پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن میں فقہ جعفریہ کے پیروکاروں کیلئے منظور کیا جانیوالا فیملی لاز ترمیمی بل مکتب تشیع کے عقائد اور فقہ سے ہی متصادم اور آئین کے آرٹیکل 227 کے منافی ہے اس بل کے ذریعے وراثت کی تقسیم کے معاملے میں اہل تشیع پر ان کے فقہی اصولوں سے متصادم قانون کا اطلاق کرکے فقہ جعفریہ پر نہ صرف حملہ کیا گیا ہے بلکہ مستقبل میں ہماری فقہ میں بیرونی مداخلت و ترامیم کا دروازہ کھولا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم بتادینا چاہتے ہیں کہ اہل تشیع اپنے فقہ جعفریہ سے متصادم کسی قانون کو قبول نہیں کریں گے جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث نئی سوسائٹیاں اور آبادیاں قائم ہورہی ہیں اور ملک میں نئی مساجد‘ نئے مدارس کے قیام اور نئی محافل کے انعقاد سب کی اجازت ہے لیکن عزاداری کے نئے پروگراموں کے انعقاد پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔ تمام اضلاعی افسران کو باقاعدہ لیٹر جاری کرکے نئی مجالس و ماتمداریوں کے پروگرام نہ ہونے دینے کی تاکید کی ہے جبکہ گزشتہ محرم الحرام و صفر کے مہینوں کے دوران تو پولیس کی جانب سے چار دیواری کے اندر منقعدہ مجالس کے خلاف بھی بدترین کریک ڈاؤن کیا گیا اور کئی مقامات پر مجالس عزا کیخلاف مقدمات درج کئے گئے۔ مذہبی عبادات پر یہ پابندیاں بنیادی انسانی و آئینی حقوق کی پامالی ہیں اسی طرح سوشل میڈیا پر حضرت فاطمہ زہراؑ کی شہادت کی مناسبت سے نوحوں کو بلاک کردیاگیا ہے جو ہماری مذہبی عبادات و عقائد میں مداخلت ہے۔ یہ امر بھی قابل صد افسوس و مذمت ہے کہ غیر ملکی ایجنڈے کے تحت شدت پسند نظریات کی آبیاری جاری ہے اور ملک میں تکفیری و کالعدم گروپوں کوکھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی شیعہ تھے جبکہ آج حکومتی وزراء کی موجودگی میں جلسوں اور ریلیوں میں شیعہ کافر کے نعرے لگ رہے ہیں لیکن انہیں روکنے والا کوئی نہیں بلکہ انہی شرپسندوں کو خوش کرنے کیلئے صوبوں اور مرکز میں قانون سازی بھی کی جارہی ہے۔ کالعدم دہشتگرد جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کو بچاتے ہوئے ملک کے کئی مقامات پر خانہ پری کیلئے امن پسند اہل تشیع کو شیڈول فور میں شامل کردیا گیا ہے جو انتہا پسندوں کو ریلیف اور بے گناہوں کو ٹارچر کرنے کے مترادف ہے۔
علامہ اصغر نقوی نے کہا کہ ہم بلوچستان میں اپنی بہادر پاک فوج پر دہشت گرد حملوں کی بھی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی کے اس مطالبے کو دہراتے ہیں کہ ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے تمام کالعدم جماعتوں پر عملی پابندی لگائی جائے اور انہیں کہیں نئے اور کہیں پرانے نام استعمال کرکے کام کرنے سے روکا جائے۔ مکتب تشیع کی نمائندگی کے نام پر اکثر کمیٹیوں اور اداروں میں ذاتی پسند و تعلقات کی بنیاد پر لوگ شامل کئے جاتے ہیں جو سرکاری اداروں میں ہماری نمائندگی کے بجائے اپنے ذاتی و سیاسی مفاد کی نمائندگی کررہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم یہ بتادینا چاہتے ہیں کہ جو کوئی بھی متعصبانہ یکساں نصاب پر رضامندی کے دستخط کرنے‘ عزاداری کے پروگراموں پر پابندیاں و مقدمات قائم کروانے اور ہمارے فقہ جعفریہ سے متصادم قانون کو اہل تشیع پر مسلط کروانے جیسے غیر منصفانہ‘ غیر آئینی اور شیعہ دشمن اقدامات میں ملوث ہے وہ اہل تشیع کا نمائندہ نہیں ہے اور کسی بھی سرکاری ادرے میں اس کی تقرری مکتبِ تشیع کو سرکاری اداروں میں نمائندگی سے محروم کرنے کے مترادف ہے جس کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونیوالے ملک میں یزید اور عمرا بن سعد جیسے ملعونین پر لعنت کرنے کے نتیجہ میں بھی فوری طور پر توہین کے مقدمات قائم کئے گئے لیکن وہی انتظامیہ رسولؐ پاک کے اہلبیتؑ کی مقدس ترین ہستیوں کی توہین پر ایف آئی آر کا اندراج کرنے کو اس وقت تک تیار نہیں ہوتی جب تک اہلبیتؑ کے چاہنے والوں کی جانب سے ملک بھر میں احتجاج نہ کیا جائے‘ لہٰذا ہم اس دوغلی و غیر منصفانہ و غیر اسلامی پالیسی کی بھی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ حکمرانوں کو یاد دہانی کرواتے ہیں کہ ملک پاکستان کے قیام‘ استحکام‘ اقتصادی ترقی اور دفاع‘ غرض کہ قربانی کے ہر مرحلے میں مکتب تشیع ہرآول دستے میں شامل رہا ہے جس کے ساتھ متواتر متعصبانہ سلوک پاکستان کی بنیادیں کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ ہم ارباب اختیار کو بتادینا چاہتے ہیں کہ اپنے مذہب و عبادات اور عقائد پر غیر آئینی پابندیاں ہمارے لئے ریڈ لائن کی حیثیت رکھتی ہیں جنہیں قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنا ہمارا بنیادی و آئینی حق ہے جس پر ہم کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔انہی ظالمانہ متعصبانہ اقدامات کو سب سے پہلے مسترد کرنیوالے قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے پہلے مرحلے کے طور پر کل 25 رجب کو ملک گیر ماتمی احتجاج کا اعلان کردیا ہے۔
قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی کی جانب سے 25 رجب کو ملک گیر ماتمی احتجاج کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وطن عزیز پاکستان کے نظریہ اساسی کے تحفظ‘ ملت کے دینی و آئینی حقوق کی پاسداری اور مشن ولا و عزا کے مقدس اہداف کیلئے قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی کے ہر حکم پر بھرپور لبیک کہا جائے گا اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ اور کل انشاء اللہ سندھ کے10 شہروں میں ہم ماتمی احتجاج کررہے ہیں سندھ کا بڑا احتجاج کل2 بجے انچولی سے شاہرائے پاکستان تک ہوگا۔



