پاسدار دین و وطن،مبلغ وحدت و اخوت ،مجسمہ عشق رسول ؐو اہلبیتؑ آغا حامد موسویؒ ۔ آ پ کی سیرت نصابوں میں شامل کی جائے ؛ روزنامہ نوائے وقت کا آغا حامد موسوی کی رحلت پر خصوصی ایڈیشن
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت لاہور ۲۹ جولائی ۲۰۲۲۔ ۔۔۔ تحریر: ایس عباس کاظمی
زہد وتقوی کے پیکر ،وحدت و اخوت کے مبلغ عالم ربانی آغا سید حامد علی شاہ موسوی وریامال چکوال کے معروف کاظمی موسوی سادات خانوادے سے تعلق رکھتے تھے حضرت بابا شاہ زین ؒ حضرت بری امامؒ حضرت شاہ چن چراغ ؒ جیسے بزرگان دین کا تعلق بھی اسی روحانی خاندان سے تھا آپ نے 12مئی 1940کو گوٹھ خان صاحب تھرپارکر میر پور خاص سندھ میں سید سبز علی شاہ موسوی کے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں آپ کے خانوادہ کی زرعی زمینیں تھیں، ابتدائی تعلیم مڈل اسکول کریالہ چکوال سے حاصل کی۔ بعد ازاں دینی تعلیم کے لیے معروف دینی درسگاہ دار العلوم محمدیہ سرگودھا تشریف لے گئے جہاں نصیر الملت علامہ نصیر حسین کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ۔ کچھ ہی عرصہ بعد آپ اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے حوزہ علمیہ نجف اشرف عراق تشریف لے گئے۔آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے نجف اشرف میں دنیائے اسلام کے بزرگ فقہا آیۃ اللہ العظمی محسن الحکیم طباطبائی، آیۃ اللہ العظمی ابو القاسم الخوئی، آیۃ اللہ العظمی روح اللہ موسوی الخمینی، آیۃ اللہ العظمی مفتی الشیعہ، آیۃ اللہ العظمی محمود شاہرودی، آیۃ اللہ العظمی جواد تبریزی جیسی نابغائے روزگار علمی شخصیات سے تعلیم حاصل کی، نجف اشرف میں آغا حامد علی شاہ موسوی صرف طالبعلم نہیں پاکستان کے سفیر بھی تھے انہوں نے دنیائے عرب میںبھارتی پروپیگنڈے کو زائل کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا اور مراجع عظام و مجتہدین سے کشمیر کے حریت پسندوں کی حمایت میں بیان بھی دلوائے ۔نجف اشرف کی روحانیت ہمیشہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی کے دل میں گھر کئے رہی ۔
60کی دہائی کے اواخر میں ایران سے آیت اللہ العظمی سید محسن الحکیم طباطبائی نے راولپنڈی علی مسجد میں اپنے داماد کودینی خدمات کیلئے روانہ کیا ،آیۃ اللہ محمد علی الحکیم یہاں زیادہ عرصہ مقیم نہ رہ سکے ۔چنانچہ ان کے واپس نجف چلے جانے کے بعدآیۃ اللہ محسن الحکیم کی نگاہ انتخاب آغا سید حامد علی شاہ موسوی پر ٹھہری ۔ عظیم استاد کا فرمان سن کر آپ نے بس اتنا کہا کہ میں تحصیل علم و عرفان کی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے نجف کو نہیں چھوڑنا چاہتا لیکن اگر آپ کا اصرار ہے تو استخارہ فرما لیں ۔ آیۃ اللہ محسن الحکیم نے قرآن سے استخارہ کیااور یوں آپ جیسی متقی ہستی کو راولپنڈی کی علی مسجد میں خدمات کی انجام دہی کیلئے پاکستان روانہ ہونا پڑا۔ مسجد میں دین کی تبلیغ کے دوران پنجگانہ نماز کی تلقین کرکے آپ نے لاتعداد بے نمازوں کو نماز کا پابند بنا دیا۔آغا سید حامد علی شاہ موسوی کا طرز رہائش انتہائی سادہ رہا علی مسجد سے متصل جس دو ڈھائی مرلے کے مکان میں نجف اشرف سے واپس تشریف لا کر قیام کیا دم آخر تک وہیں مقیم رہے ۔اپنے بھائی میر مرتضی بھٹو کی شہادت کے بعد سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید اپنی زندگی کی شدید اضطراری کیفیت میں علی مسجد آغا سید حامد علی شاہ موسوی سے دعائیں لینے تشریف لائیں تو جہاںیہ سن کر حیران رہ گئیں کہ آغا حامد موسوی خواتین سے ملاقات نہیں کرتے وہیں یہ امر بھی ان کیلئے باعث حیرت تھا کہ اتنا بڑا عالم اس قدر تنگ و تاریک مکان میں کئی دہائیوں سے بڑے فخر سے قیام پذیر ہے ، بعد ازاں انہوں نے آغا موسوی کی اہلیہ کے ذریعے آغا حامد موسوی سے دعائیں وظائف اور رہنمائی حاصل کی ۔
آغا سید حامد علی شاہ موسوی ہمیشہ دنیاوی مناصب اور شہرت سے دور رہنے کی کوشش کرتے مفتی جعفر حسین کے انتقال کے تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزرجانے کے باوجود شیعہ قیادت پر اتفاق نہ ہو سکا تو علماء اور شیعہ عمائدین کا ایک بڑا وفد دسمبر 1983میں علی مسجد آیا اور آغا سید حامد علی شاہ موسوی کو قوم کی قیادت کی پیش کش کی جسے آغا موسوی نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ میں شہرت سے دور رہنے والا آدمی ہوں سیادت خود ایک قیادت ہے لہذا مجھے اس ذمہ داری سے دور رکھا جائے اس پر شرکائے وفد نے خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ کی چادر کا واسطہ دیا تو آغا موسوی نے اس شرط پر قیادت قبو ل کرنے کاعندیہ دیا کہ ہم غدیر خم کے ماننے والے ہیں جب تک پوری قوم توثیق نہیں کرے گی یہ منصب قبول نہیں کروں گا اور یوں 9-10فروری1984ء کو اسد آباد دینہ کے مقام پر پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا شیعہ کنونشن منعقد ہوا جس کی صدارت علامہ اظہر حسن زیدی اور آیۃ اللہ العظمی علامہ ضمیر الحسن نجفی لکھنوی نے فرمائی اور آغا سید حامد علی شاہ موسوی قائد ملت جعفریہ کے منصب پر فائز ہو گئے۔
ضیاء الحق دور میں شروع ہونے والی نفرت و دہشت کے طوفان نے ہمیشہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی کو مضطرب رکھا۔آغا موسوی پاکستان میں شیعہ سنی یکجہتی کو دنیا بھر کیلئے مثال قرار دیتے اور کہتے ہمارے بنے بنیرے سانجھے ہیں کوئی شیعہ یا سنی ایک دوسرے کو نہیں مار سکتا وہ دہشت گردی کو ہمیشہ بیرونی پراکسی لڑائیوں کا شاخسانہ قرار دیا کرتے ۔80کی دہائی میں ہی آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے مذہبی جماعتوں کو بیرونی ممالک سے ملنے والی فنڈنگ کو فساد کی جڑ قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کا مطالبہ کیا ۔آغا سید حامد علی شاہ موسوی کا ہمیشہ موقف رہا کہ سب سے پہلے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور خود اپنے آپ کو ہرآڈٹ اور احتساب کیلئے پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کو انتخابی سیاست سے ہمیشہ دور رکھااور سیاسی جماعتوں پر بھی زور دیتے رہے کہ انتہا پسند فرقہ وارانہ جماعتوں کو دم چھلہ نہ بنائیں ،آغا سید حامد علی شاہ موسوی کا موقف تھا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں حکومت ہو یا اپوزیشن متشدد اور انتہا پسند عناصرکو پریشر گروپ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔وہ ہمیشہ فرماتے کہ گولی اور گالی کسی مسئلے کا حل نہیں ۔جب 2005میں دربار حضرت بری امام ؒ پر عین آغا حامد موسوی کے خطاب سے پہلے خودکش حملہ کیا گیا اگرچہ خود کش دھماکے میں آغا حامد موسوی محفوظ رہے لیکن بیسیوں زائرین شہید ہوگئے لیکن اس سانحہ کے بعد آپ نے اپنے تمام پیروکاروں کو حکم جاری کیا کہ احتجاج میں کوئی ایک پتہ بھی نہیں توڑے گا یہ عمل دنیا کیلئے حیران کن تھا کیونکہ دہشت گردی کے سانحات کے بعد جلاؤ گھیراؤ معمول بن چکا تھا
آغا سید حامد علی شاہ موسوی کا وسیع دسترخوان بھی اپنی مثال آپ تھا نجف اشرف سے تشریف لانے کے 55سال کے تمام عرصے کے دوران ان کی والدہ محترمہ پھر اہلیہ اور حالیہ دنوں میں دختران تمام مہمانوں اور دینی طلبہ کیلئے خود لنگر کا اہتمام کر کے بھیجتیں ،آغا سید حامد علی شاہ موسوی کے پاس اگرچہ امراء و غرباٗ سبھی پریشانیوں میں دعاؤں کیلئے حاضر ہوتے لیکن ان کے نزدیک غریبوں کا بہت بڑا مقام تھا اور یہی فرماتے کہ دین کا اصل سرمایہ یہ غریب لوگ ہیں جن کے لباس میلے مگر دل صاف ہیں ۔
آغا حامد موسوی کے والد گرامی بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے والدہ نے انتہائی پاکیزگی کے ساتھ آپ کی پرورش کی ۔والدہ کے انتقال کے بعد بھی آغا حامد موسوی کا یہ معمول تھا کہ ہر روز دروس کیلئے روانگی یا جلو س عزا میں جانے سے پہلے اپنے والدہ کے جوتوں کی زیارت کیا کرتے تھے۔آپ انسانیت کی تکریم کے قائل تھے جو شخص آپ سے ملاقات کیلئے جاتا خواہ وہ کم سن ہی کیوں نہ ہو اس کا اٹھ کر استقبال کرتے تھے و لقد کرمنا بنی آدم کے فرمان قرآنی کو دہراتے ہوئے ہر فرقہ مسلک مذہب کے انسان کی عزت حرمت اور تحفظ کی تلقین کرتے اسی لئے ان کے معتقدین میں تمام مسالک ہی نہیں تمام مذاہب کے افراد شامل تھے۔ جب میلاد النبی ؐ اور عزاداری امام حسین ؑ کے جلوسوں پر پابندی لگائی گئی تو آغا سید حامد علی شاہ موسوی کی جانب سے شروع کئے جانے والے حسینی محاذ ایجی ٹیشن میں اہل سنت اہل تشیع کے ساتھ بیسیوں عیسائی افراد نے بھی یکجہتی کیلئے رضاکارانہ گرفتاریاں دیں ۔ س پرامن احتجاج کے دوران چودہ ہزار شیعہ سنی برادران نے رضاکارانہ گرفتاریاں دیں۔ ٓغا حامد موسوی کا موقف تھاکہ ہر مسلک مکتب کو اس کے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنا ہی بانیان پاکستان کا خواب تھا جسے پورا کرنا صاحبان اقتدار کی ذمہ داری ہے ۔آغا سید حامد علی شاہ موسوی قرآن و اسلامی تعلیمات پر کامل یقین رکھتے تھے ۔ آج اس بے حمیتی کے دور میںضروت ہے کہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی جیسی ہستی کے کردار افکار جرات و دلیری زہد وتقوی عرفان محمد و آل محمد ؐ کی انتہاؤں کو چھوتے پختہ عقیدے کو نصابوں میں شامل کیا جائے۔
آغا سید حامد علی شاہ موسوی کے انتقال کی خبر نے پورے ملک کو سوگوار کردیا صدر وزیر اعظم سیاسی رہنماؤں تمام مکاتب کے علماء دنیا بھر کی علمی شخصیات نے ان کی وفات پر تعزیت کا اظہار کیا ہے اور اسے عالم اسلام کیلئے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ۔آپکی نماز جنازہ 25 جولائی گیارہ بجے دن مرکزی امام بارگاہ جامعۃ المرتضیٰ جی نائن فور اسلام آباد میں ادا کی گئی جس میں بلاتفریق مسلک و مذہب ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
نوائے وقت ایڈیشن کا لنک
https://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/lahore/2022-07-29/page-7
https://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/lahore/2022-07-29/page-7/detail-1
