حجر اسود کی اہمیت : بندوں کے میثاق کا حجر اسود سے کیا تعلق ہے؟
الکافی میں بکیر بن اعین سے منقول ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے عرض کیا : حجر اسود کو اس رکن میں کیوں نصب کیا گیا ہے اسے کسی دوسرے رکن میں نصب کیوں نہیں کیا گیا ؟ اسے بوسہ کیوں دیا جاتا ہے ؟ اس پتھر کو جنت سے کیوں اتارا گیا اور بندوں کے میثاق کو اس میں کیوں رکھا گیا کسی دوسرے پتھر میں میثاق کو کیوں نہیں رکھا گیا ؟ آپ مجھے ان سوالات کے جواب دیں کیونکہ میں اس کے متعلق سوچ کر تھک چکا ہوں۔
حضرت امام (علیہ السلام) نے فرمایا : تم نے بہت مشکل اور طویل مسئلہ دریافت کیا ہے۔ تو اب جواب کو غور سے سن اور اسے اچھی طرح سے ذہن نشین کر۔ بات یہ ہے کہ حضر اسود کو چمک دار جوہر کی صورت میں جنت سے آدم کے پاس زمین پر بھیجا گیا تھا اور سبب میثاق کی وجہ سے اسے اس رکن میں نصب کیا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم سے اسی رکن کے پاس اپنی ربوبیت کا میثاق لیا تھا اور اسی مقام پر قائم آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک پرندہ نازل ہوگا اور وہ پرندہ سب سے پہلے آپ کی بیعت کرے گا۔ وہ پرندہ جبرائیل (علیہ السلام) ہوگا۔ قائم آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی رکن سے پشت ٹکا کر بیٹھیں گے۔ یہی رکن قائم آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حجت اور دلیل ہوگا اور جو اپنے عہد کو پورا کرے گا اس کے عہد کے پورا کرنے کا یہ پتھر گواہ ہوگا۔
اور جہاں تک اس پتھر کو بوسہ دینے کا تعلق ہے تو یہ تجدید عہد کے لیے ہے اور اسی عہد کو یاد کرنے کے لیے بیت اللہ کا حج فرض کیا گیا تاکہ لوگ ہر سال آئیں اور اپنے عہد و میثاق کو یاد کریں اور اپنی امانت ادا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ حجر اسود کے سامنے یہ دعائیہ الفاظ کہے جاتے ہیں : امانتی ادی تھا ومیثاقی تعاھدتہ لتشھد لی بالموافاۃ (میں نے اپنی امانت کو ادا کیا ہے اور میں نے جو اقرار کیا تھا اسے میں نے پورا کیا ہے اور تم میری اس وعدہ وفائی کی گواہی دینا) ۔ خدا کی قسم ! ہمارے شیعوں کے علاوہ اس عہد کو کسی نے پورا نہیں کیا اور یہ عہد و میثاق ہمارے شیعوں کے علاوہ کسی کو یاد نہیں ہے۔ جب ہمارے شیعہ حجر اسود کے پا سجاتے ہیں تو وہ انھیں پہچان لیتا ہے اور دوسرے وہاں جاتے ہیں تو وہ انھیں نہیں پہچانتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدائی میثاق کو تمہارے علاوہ کسی نے یاد نہیں رکھا۔ لہٰذا حجر اسود صرف تمہارے حق میں گواہی دے گا اور دوسروں کے خلاف گواہی دے گا اور کہے گا کہ غیروں نے میثاق کو بھلا دیا ہے اور اس میثاق کی تکذیب کی ہے۔ یہ پتھر قیامت کے دن خدا کی طرف سے بہت بڑا گواہ بن کر پیش ہوگا اور جب یہ پتھر عرصہ محشر میں پیش ہوگا تو اس کے پاس بولنے والی زبان ہوگی اور اس کی دو آنکھیں ہوں گی اور وہ اس وقت اپنی اصلی صورت میں ہوگا جس نے وعدہ وفائی کی ہوگی وہ اس کے حق میں گواہی دے گا اور جس نے میثاق فراموش کیا ہوگا وہ اس کے خلاف گواہی دے گا۔
پھر آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ اس پتھر کو جنت سے زمین پر کیوں اتارا گیا ؟ میں نے عرض کیا : نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا : یہ دراصل خدا کا عظیم فرشتہ تھا جب اللہ نے ملائکہ سے میثاق لیا تو اس نے تمام فرشتوں سے پہلے اقرار کیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے تمام مخلوق پر امین بنایا اور اس میں میثاق کو رکھ دیا اور مخلوق کو حکم دیا کہ وہ ہر سال اس کے پاس جا کر اپنے میثاق کا اقرار کریں۔ اللہ تعالیٰ نے جنت میں اسے آدم کا رفیق بنایا وہ آدم کو میثاق کی یاد دہانی کراتا تھا۔ پھر جب آدم سے خطا سرزد ہوئی اور انھیں جنت سے نکالا گیا تو انھیں وہ میثاق فراموش ہوگیا جو ان سے محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے وصی کے لیے لیا گیا تھا۔ آدم حیران و سرگشتہ ہو کر زمین پر پھرتے رہے۔ پھر جب اللہ نے آدم کی توبہ قبول کی تو اس فرشتہ کو سفید موتی کی شکل میں تبدیل کردیا گیا اور اسے جنت سے سرزمین سراندیپ پر آدم کے پاس بھیجا گیا۔ جب آدم نے خوبصورت پتھر کو دیکھا تو وہ اس سے بڑے مانوس ہوئے۔ انھیں اس کی اصلیت کا کوئی علم نہیں تھا۔ وہ اسے خوبصورت پتھر سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پتھر میں بولنے کی قوت عطا فرمائی۔ اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے کہا : کیا آپ مجھے جانتے ہیں ؟ حضرت آدم (علیہ السلام) نے کہا : نہیں ۔ پتھر نے کہا : تم بھلا مجھے کیسے پہچانو گے کیونکہ ابلیس نے تم پر غلبہ پالیا تھا اور تمہیں رب کا ذکر فراموش کرا دیا تھا۔ اس کے بعد وہ پتھر اپنی اس حالت میں آیا جس حالت میں وہ جنت میں آدم کے ساتھ رہتا تھا اور اس نے آدم سے کہا : وہ عہد و میثاق کہاں ہے ؟
آدم (علیہ السلام) یہ سن کر چونک پڑے اور انھوں نے میثاق کو یاد کیا اور رونے لگے اور انھوں نے اس کا بوسہ لیا اور انھوں نے اپنے عہد و میثاق کی تجدید کی۔ اس کے بعد اللہ نے اس کو دوبارہ سفید اور چمک دار در کی شکل میں تبدیل کردیا۔ جس کی روشنی دور دور تک جاتی تھی۔ آدم (علیہ السلام) نے اس کی تعظیم و تکریم کے لیے اسے اپنے کندھے پر اٹھایا اور مکہ کی طرف چل پڑے۔ جب کبھی آپ تھک جاتے تو جبرائیل امین (علیہ السلام) اسے اٹھاتے تھے۔ آخر کار آپ مکہ پہنچ گئے اور مکہ پہنچ کر آدم اس سے مانوس رہے اور روزانہ دن رات اس کے سامنے تجدید عہد کرتے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے ملائکہ کو کعبہ بنانے کا حکم دیا تو حجر اسود کو اسی رکن میں رکھوایا جہاں خدا نے روز الست لوگوں سے میثاق لیا تھا اور اسی جگہ اللہ نے اس میثاق کو حجر اسود میں رکھا۔ آدم (علیہ السلام) بیت اللہ سے صفا پر گئے اور حضرت حوا مروہ پر گئیں۔ آدم کی نظر پڑی تو انھیں وہ پتھر رکن میں نصب دکھائی دیا تو انھوں نے تکبیر و تہلیل و تمجید کی۔ اسی لیے یہ عمل سنت بن گیا کہ صفا پر کھڑے ہو کر جب حجر اسود کے سامنے آئے تو اس وقت تکبیر کہنی چاہیے۔ اللہ نے اس پتھر میں بنی آدم کے علاوہ ملائکہ کے میثاق کو بھی رکھ دیا۔ واضح رہے جب اللہ نے ملائکہ سے اپنی ربوبیت اور محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور علی کی وصیت کا اقرار لیا تو ملائکہ کے شانے کانپنے لگ گئے۔ سب سے پہلے اسی فرشتہ نے اقرار کیا اور تمام ملائکہ کی بہ نسبت اسے محمد و آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بےتحاشا محبت تھی۔ اسی لیے اللہ نے تمام ملائکہ میں سے اس کا انتخاب کیا اور اسے میثاق کا امین بنایا۔ جب وہ قیامت کے دن آئے گا تو اس کے پاس بولنے والی زبان اور دیکھنے والی آنکھ ہوگی اور وہ ان لوگوں کی گواہی دے گا جنھوں نے اس کے سامنے اپنے عہد کی تجدید کی ہوگی اور اپنے میثاق کو یاد رکھا ہوگا۔ (تفسیر نور الثقلین )
مراسلہ : ابتہاج زینب موسوی