یہ کون سخی ہیں؟کوروناسےخوفزدہ فضاؤں میں محبتوں کا چھڑکاؤ کرتے سرفروش
تجزیہ و تحریر: سید ابن فدا
ایسے حالات میں جب کورونا وائرس کے خوف نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے عالمی لاک ڈاؤن کے سبب دنیا گھروں میں مقید ہو چکی ہے عروس البلاد کراچی میں سیاہ وردیاں پہنے بے خوفی سے سپرے کرتے ہوئے کچھ جوان ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شاید انہیں وائرس پھیلنے کی اطلاع ہی نہیں ملی ۔
ایسے وقت میں جب ہر انسان دوسرے انسان سے وائرس کے خوف کے سبب کراہت کرتے ہوئے دوری اختیار کئے جارہا ہے یہ جوان بلاتفریق مذہب ، مسلک ، نسل ، برادری، عقیدہ انسانوں کی بھلائی کیلئے لپکے چلے جارہے ہیں ۔یہ مختار فورس کراچی کے والنٹیئرز ہیں جو اپنے کمانڈر عسکری رضا زیدی اور ڈپٹی کمانڈر زین رضا زیدی کی قیادت میں وہاں وہاں جا رہے ہیں جہاں جہاں شیطانی وائرس کی موجودگی کا شبہ ہے ۔

وہ کراچی جسے فرقہ وارانہ آگ میں جلانے کیلئے پاکستان کے ازلی دشمن نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا خود مختار فورس کے کمانڈر عسکری رضا زیدی کے سکاؤٹ والد سید اظہر رضا زیدی کو بھی دہشت گردوں نے بے رحم گولیوں سے بھون ڈالا تھا لیکن دشمن کے بارود کی بو نسلوں میں سفر کرتی محبت و اخوت کی خوشبو کو مٹانے میں ناکام ہو گئی۔ دشمنوں کے دیئے ان گنت زخموں سے چور کراچی کے دردوں کو مختارفورس کے جوان وحدت و اخوت کے جذبے سے سمیٹتے نظر آتے ہیں کس قدر خوبصورت ہیں یہ مناظر کہ مختار فورس کے یہ رضا کار امام بارگاہوں عزا خانوں کے ساتھ ساتھ دیوبندی بریلوی اور سلفی مساجد میں بھی سپرے کرنے میں پیش پیش ہیں اور ان مساجد کے منتظمین ان کیلئے دیدہ و دل فرش کئے ہوئے ہیں۔







سندھ صادقاں کا دارالخلافہ ،کراچی جو ہندو مسلم سکھ عیسائی پارسی مذاہب کی رواداری کا سمبل تھا اسے بد نظروں کی ایسی نظر لگی کہ وہی عروس البلاد تنگ نظری اور انتہاپسندی کی آما جگاہ کے طور پر پیش کیا جانے لگا جس میں سرحد پار کے میڈیا نے نمایاں ترین کردار ادا کیا اسی کراچی میں اپنے قائد آغا سید حامد علی شاہ موسوی کی تصویریں سینے پر سجائے مختار فورس کے رضا کار کبھی ہنومان مندر ، کبھی شیراوتی ماتا کبھی عوامی چرچ کبھی گوردوارہ کے بام و در پر انسانیت دشمن جرثومے کی پناہ گاہوں کو ادویات سے تباہ کرتے نظر آتے ہیں تو دشمن کا پروپیگنڈہ بھی کرچی کرچی ہوتا نظر آتا ہے ۔

مختار فورس کے وہ رضا کار جو میلاد اور عزاداری کے جلوسوں کے اطراف میں امن دشمنوں کے سامنے سینہ سپر نظر آتے تھے انہوں نے کووڈ-19 کی وبا میں بھی اپنی روش نہ چھوڑی فر ق اتنا ہے کہ پہلے یہ دشمن کو روکنے کیلئے ایستادہ رہتے تھے آج یہ جھپٹ جھپٹ کر انسانیت دشمن وائرس کو کچل رہے ہیں ۔


مختار فورس کے یہ رضا کار ایک امید ہیں ایک روشنی ہیں ایک خوشبو ہیں ایک باد صبا ہیں جنہیں کسی ستائش یا صلے کی آرزو ہے نہ پرواہ ،ان کا مطمع نظر فقط اور فقط اللہ نبی اور معصومین ؑ کی خوشنودی ہے اور ان کا سرمایہ ان کے قلندر قائد آغا سید حامد علی شاہ موسوی کی دعائیں ہیں ۔کریم اللہ ان سرفروشوں کی جوانیاں شہزادہ علی اکبرؑ کی جوانی کے صدقے سلامت رکھے ۔دنیا کے دکھ اور خوف سمیٹنے والے ان جوانوں کے قریب سے بھی غم حسین ؑ کے سوا کوئی غم نہ گزرے ۔ آمین ثم آمین
جس وطن کے پاس مختار فورس کے رضا کاروں جیسے سُچے موتی ہوں اس کی فصل گل پر کبھی زوال نہیں آسکتا ۔ مختار فورس کا عمل یہ پکار رہا ہے کہ
اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں
زندگی ہوش میں ہے جوش ہے ایمانوں میں
کتنے روشن ہیں دیے تیرے شبستانوں میں
چاندنی بوئیں گے جھلسے ہوئے میدانوں میں
اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں
ہم تجھے آگ کا دریا نہیں بننے دیں گے
ظلم و نفرت کا تماشہ نہیں بننے دیں گے
تجھ کو پالیں گے محبت کے گلستانوں میں
اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں
زندگی ہوش میں ہے جوش ہے ایمانوں میں

بہت اچھی اور پر خلوص کاوش ہے۔ شاید اقبال اسی موقع کے لئے کہہ گئے۔
یہ فیضان نظر تھا یا کے مکتب کی کرامت تھی۔
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی۔