مخدوم نزاکت حسین نقوی ۔ ذکر حسین ؑ اور منبر حسین ؑ کی روحانیت اور حرمت کا محافظ
تحریر : علا حیدر
ہم نے جب شعور کی دنیا میں قدم رکھا تو جن شخصیات نے مرکز تشیع تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی محبت کے گہرے نقش ہماری شخصیت پر چھوڑے ان میں ایک نمایاں ترین نام باوا سید نزاکت حسین شاہ نقوی کا ہے جنہیں میں بچپن سے محبت اور عقیدت سے ’لالہ ‘ کہا کرتا تھا اسی وجہ سے مرکز کی ورکنگ ٹیم کے اکثر برادران انہیں لالہ ہی کہہ کر پکارتے اور یاد کرتے تھے۔ذکر حسین ؑ ، منبر حسینؑ ذاکری کی اس انداز میں خدمت کی کہ عالم ربانی پیشوائے روحانی قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی ؒ سے مخدوم ہونے کا اعزازپایا اور پھر ایسے مخدوم الملک ہوئے کہ مخدومی کا استعارہ بن گئے کہیں لفظ مخدوم گونجتا ہے تو تصور میں نزاکت حسین شاہ کی تصویر ابھر آتی ہے ۔
لالہ نزاکت کے خانوادہ سے قربت ہمیں وراثت میں ملی تھی ان کے والد سید ذاکر حسین شاہ نقوی مرحوم کا نام محبت اور عقیدت سے ہمارے گھروں میں لیا جاتا تھا مخدوم نزاکت نقووی کی والدہ شفقت و محبت کا پیکرتھیں اور ہمارے شاہ جی کو اپنے سگے بھائیوں سے بڑھ کر بھائی کہا کرتی تھیں جب شاہ جی سے پوچھا تو انہوں نے ذاکر شاہ جی کے علاج کیلئے اپنی تگ و دو کا قصہ سنایااس کے علاوہ سینکڑوں واقعات ہیں جن کا ذکر پھر کبھی سہی مختصر یہ کہ ہمارے خانوادے مشکل وقتوں کے ایک دوسرے کے ساتھی تھے۔
فخر ماتمیان و عزاداران باوا سید کرم حسین شاہ کاظمی المشہدی کی بزم عزا سے تعلق مخدوم نزاکت نقوی کو ورثے میں ملا باوا ذاکر شاہ جی کے گھر کی مجلس جلوس کا آغاز باوا کرم حسین شاہ ہی سرپرست کے طور پر فرماتے ۔ چوہڑ شاہ پیاراکو مخدوم نزاکت شاہ کا دوسرا گھر کہنے کے بجائے پہلا گھر کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔مخدوم صاحب کا خانوادہ ایک عرصہ ہمارے محلہ علی آباد اور سخی شاہ پیاراؒ کی نگری میں مقیم بھی رہے ۔
جس شے نے ہمیں مخدوم صاحب سے بہت زیادہ روحانی قربت دی وہ عزاداری اور آقای موسوی و تحریک نفاذ فقہ جعفریہ سے اٹوٹ محبت تھی ہمارے شعور میں درجنوں ایسے واقعات نقش ہیں جب لالہ نزاکت ، ماموں اقدس، باوا فرزند شاہ جی اور ننھا پاپا(منور حسین شاہ حال مقیم یوکے ) کو ان عناصر سے مزاحم ہوتے دیکھا جو مرکز کی جانب انگشت نمائی کی کوشش کرتے تھے۔ لہذا تحفظ مرکزیت کا یہ جذبہ ہمارے رگ و پے میں نمو پاتا گیا۔
ہر تھوڑے دنوں بعد ہمارے گھر میں بزرگ اور مشہور ذاکرین کی مجالس کی درجنوں کیسٹوں کا اضافہ ہوجا تا پتہ چلتا کہ لالہ نزاکت ، باوا قاسم شاہ جی ، ماموں اقدس ، سخاوت انکل رتیاں سیداں ، سید کسراں ، تلہ گنگ ، چکوال ، ڈیرہ غازی خان ، بھکر اور نہ جانے کہاں کہاں کے جلسے سے ریکارڈ کرکے لائے ہیں تبھی معلوم ہوا کہ سونی اور پیناسونک کی نئی برانڈڈ کیسٹوں کے باکس اسی لئے ہمارے شاہ جی مسقط سے بھر بھر کر لایا کرتے تھے۔قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی کی حسینی محاذ پر کی جانے والی ان گنت ریکارڈنگز بھی ان میں شامل تھیں جو کوئی مانگ کر لے گیا واپس نہ کی ۔ اسی دور میں ایک کیسٹ میں ایک قصیدہ سنا جس کے دو مصرعے یا دہیں ۔ کیسٹ کے باہر ذاکر مداح حسین شاہ نام لکھا تھا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بونگا بلوچاں والے تھے ۔ ایک مصرعہ تھا کہ
ہوکے نفاذ رہسی فقہ جعفریہ
اور ایک مصرعہ تھا
سر دے کے بچڑیاں دے جھنڑ جھنڑ ونجے رقیہ ؑ
اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ حسینی محاذ ایجی ٹیشن کے دوران ذاکرین اپنے مرکز سے کس طرح مربوط و ہم آہنگ تھے اور کس انداز میں تحریک کے پیغام کو پھیلا رہے تھے ۔
جس زمانے میں حسینی محاذ ایجی ٹیشن چل رہا تھا ماموں اقدس ہمارے ساتھ ہی رہا کرتے تھے ان کی وجہ سے ان کے سارے عزادار دوستوں کا ٹھکانہ اور مرکز ہماری بیٹھک ہوتی تھی ۔ہر روز سب امام بارگاہ قدیم حسینی محاذ جاتے اور واپسی پر وہاں کے قصے بیان ہوتے، گرفتاریوں کے دوران معصومین ؑکی تائیدی کرامات ، علامہ تاج الدین حیدری کا گوجرانوالہ ڈویژن سے گرفتاریوں کا بھر بھر کے لانا، علاقہ بنگش کے مومنین کی وارفتگی ، ذاکروں کی آمد ، خطابات، اشرف علی رضوی صفدر نقوی کی شہادتیں ،آئی ٹین مہربان شاہ جی کی مجلس میں ہمارئ خاندان کے بہت سے افراد کا گرفتار ہو جانا، باوا عباس علی شاہ مرحوم آف دولتالہ کی بہادری ، راجہ جہانداد مرحوم کی فداکاری اور ایثار کے تذکرے ہماری بیٹھک کے موضوعات ہوتے ۔ میری یادوں میں لالہ نزاکت کے وہ الفاظ بھی نقش ہیں جب انہوں نے ہمارے گھر آکر بتایا کہ آج ہم سید کسراں گئے تھے شہید صفدر نقوی کی دختر کا خطاب تھا وہاں کربلا کا منظر تھا۔ یہ سب باتیں ہماری رگ و پے میں اترتی چلی جاتی تھیں ۔
خطہ پوٹھوار میں مخدومہ عالمیان کی شہادت کا دن عموما 3جمادی الثانی کو منایا جاتا ہے مخدوم صاحب کے والد گرامی مرحوم ذاکر حسین شاہ نے علامہ اظہر حسن زیدی صاحب کے کہنے پر 13 جمادی الاول کو شاہ اللہ دتہ میں شہادت خاتون جنت ؑ کی مجلس و پرسے کا آغاز کیا۔ 1987میں جب اس عزاداری پر انتظامیہ کی جانب سے پابندی لگائی گئی تو مختار فورس کے رضا کاران نے سردار سید عبادت حسین شاہ کی قیادت میں کس پامردی سے اس جلوس کو برآمد کروایا اس کا ذکر مخدوم نزاکت نقوی کی زندگی میں ہمیشہ ممنونیت کے ساتھ رہا ۔
شیخوپورہ کی بزم ذاکرین لالہ نزاکت کے دل میں بستی تھی لیکن کچھی کی ذاکری سے انہیں کچھ عجیب پیار تھاجب کبھی کچھی کی ذاکری کی تاریخٰ مرتب ہوئی تو اس کے خدمتگاروں میں مخدوم نزاکت کا نام ضرور جگمگاتا نظر آئے گا۔ سلطان الذاکرین سید صابر حسین شاہ بہل کے ساتھ مخدوم نزاکت نقوی کا عجب انداز کا یارانہ اور محبت تھی لوگ اس وارفتگی پر ششدر و حیران ہوتے تھے پھر اس دوستی میں دراڑیں بھی آئیں جو ایک علیحدہ داستان ہے ۔
قاطع مقصرین آغا سید علی حسین نجفی قمی کی ذات تو مخدوم نزاکت نقوی کے کردار میں پیوست ہے وہ ہمیشہ مخدوم نزاکت نقوی کے ایک شفیق سرپرست رہے خداوند عالم ان کا سایہ تادیر قوم پر قائم دائم رکھے آمین مخدوم نزاکت نقوی نے بھی تادم آخر آغا صاحب کے ساتھ سعادت مندی کا فریضہ وکھرے انداز میں نبھایا۔
شہید حق زہرا ؑ علامہ ناصر عباس اور مخدوم نزاکت نقوی کی محبت ضرب المثل تھی شہید کی زبان پر نزاکت نقوی ہوتا اور مخدوم کی زبان پر علامہ ۔ کیا خوبصورت جوڑی تھی نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ۔
اگر ایک ایک ذاکر خطیب واعظ سے مخدوم کی محبت کا تذکرہ کروں تو شاید یہ مضمون کبھی ختم ہی نہ ہو ۔ مخدوم نزاکت ذاکرین کی مشکلوں کا ساتھی تھا مخدوم نے کہیں باہر جانا ہوتا تو پہلے مرکز علی ؑ مسجد آتا یا واپسی پر رپورٹ دیتا۔آغا جی موجود نہ ہوتے تو بھی ایک ایک ذاکر کی پریشانی مسائل بتاتا کہ آغا جی سے دعا کروانا امام ضامن لینا ۔
جب کسی سرکاری دفتر میں کسی ذاکر خطیب کا کوئی مسئلہ ہوتا خطیب فاتح فرات علامہ قمرحیدر زیدی صاحب کو گاڑی پر بٹھاتے کہ چلو فلاں کا مسئلہ حل کروانا ہے ۔فلاں کے بیٹے کو داخل کروانا ہے ۔پہلے علامہ قمر زیدی آقای موسوی او ر مخدوم کے درمیان رابطہ کار تھے اور پھر یہ فریضہ ہمیں بھی مل گیا جو مخدوم کی زندگی کی آخری ساعتوں تک باقی رہا۔
آغا نسیم عباس رضوی پر فالج کا حملہ ہوا تو دنیا انہیں بھولنے جارہی تھی لیکن مخدوم نزاکت نقوی ان کے خبر گیر رہے مجھے وہ ساعت یاد ہے جب ایک طویل بیماری کے بعدشہید علامہ ناصر عباس کے تاریخی اعلامیہ کے بعد مخدوم صاحب آغا نسیم عباس رضوی کو سٹیج پر لے آئے اور علامہ مرحوم نے وہ تاریخی خطاب کیا کہ ایک بار پھر ہر مجلس و جلسے کی زینت بن گئے ۔
بھکر میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ و مختار فورس کی تنظیم سازی اور قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی کے دورہ بھکر میں سب سے بڑا کریڈٹ تو بلا شبہ ہمارے دو روحانی نظریاتی برادران آغا علی اکبر (برادر صغیرآغا علی حسین نجفی ) اور ضمیر جاوید خان ایڈووکیٹ کو جاتا ہے لیکن اس دورے کی کامیابی میں بھی مخدوم نزاکت نقوی نے انتھک کردار ادا کیا۔
ذاکرین ہمیشہ دشمنان اہلبیت ؑ کے ساتھ ساتھ مقصرین کا ٹارگٹ رہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ان کی آواز کا موثر ہونا ہے جو کام واعظ خطیب گھنٹوں نہ کرسکے ذاکر کے درد کا دوہڑا چند لمحوں میں کر ڈالتا ہے ۔مخدوم نزاکت نقوی کی زندگی کا ایک سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے قائد ملت جعفریہ آقای موسوی کی ہدایات کی روشنی میں ذاکرین کو ایک پلیٹ فارم دیا انہیں جمع کیا ، انہیں مرکز تشیع علی ؑ مسجد سے مربوط رکھاانہیں قومی سطح پر ایک آواز دی ۔ اس سلسلے میں سب سے اہم سنگ میل وہ دردناک واقعہ تھا جو ذاکر ناصر عباس نوتک مرحوم کے ساتھ پھالیہ میں پیش آیا اور جس بیدردی سے ان پر جبروتشدد کیا گیا اس نے مخدوم نزاکت نقوی کو بے چین کردیا ۔مخدوم نزاکت نقوی اس سلسلے میں آقای موسوی کے پاس تشریف لائے رہنمائی اور امام ضامن حاصل کیا اور پھر میدان میں نکل آئے اور بھکر میں ذاکرین کا تا ریخی عزاداری کنونشن منعقد کروایا جس کی تمام سیکیورٹی مختار فورس بھکر کے پاس تھی ۔ اس کنونشن میں جو قافلہ مرکز سے گیا اس کی سرکردگی مرحوم ابو نصر نجم کاظمی مرحوم ، باوا سجاد حیدر کاظمی مرحوم، شوکت عباس جعفری کر رہے تھے
ذاکرین پر ہونے والے حملوں کے خلاف پاکستانی شیعیت کی تاریخ کا وہ ایک منفرد اجتماع تھا جس کے اختتام پر جاری تاریخی اعلامیہ میں علامہ آغا نسیم عباس رضوی اور آغا سید علی حسین نجفی نے مرکز مکتب تشیع تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے ساتھ ذاکرین کی لازوال وابستگی کا اعادہ کیااور اس عزم کا اظہار کیا کہ تمام ذاکرین واعظین خطبا اندر اور باہر کے دشمنوں کے خلاف متحدہیں اورہمیشہ قائد ملت جعفریہ آقای موسوی کے ہر حکم پر لبیک کہیں گے ۔ اس اجتماع نے ذکر حسینؑ کیخلاف سازشیں کرنے والوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ کنونشن ذاکرین واعظین کی نمائندہ تنظیم تحریک تحفظ ولا و عزا کے قیام کی جانب پہلا قدم تھا۔
مخدوم شروع میں اپنی ہر مجلس میں نظامت کیلئے ہمارا اور طیب الحسینی کا نام لکھوایا کرتے تھے ان کی خواہش ہوتی کہ ہر ذاکر کے بعد مرکز کی بات ہو آقای موسوی کے درس کا ذکر ہو کہ یہی وہ سبق ہے جو ہماری نسلوں کو ازبر کروانے کی ضرورت ہے اسی درس میں ذکر حسین ؑ کی روحانیت اور بزرگوں کی محنت کا تحفظ پنہاں ہے ۔ ہم تعلیمی اور مرکز کی مصروفیات کی وجہ سے نظامت کی ڈیوٹی پر زیادہ ٹائم نہ دے پاتے تو لالے سے جو ڈانٹ پڑتی اس کی لطافت کو یاد کرکے آج بھی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔
مخدوم نزاکت نقوی صاحب ان منفرد شخصیات میں شامل تھے جنہیں آغا جی نے بیش قیمت وقت دیا۔ جب بھی ملت پر کوئی کڑا وقت آیا آزمائش آئی مخدوم نذاکت دوڑ کر مرکز پہنچتے کہ آقای موسوی سے رہنمائی لیں کہ اس موقع پر ذاکرین کا کیا کردار ہونا چاہئے جب بھی کبھی مخدوم صاحب کا فون آتا کہ آغا جی سے ملناہے تو سرکار کی جانب سے حکم صادر ہوتا کہ ملاقات میں ملاقات میں قمر زیدی اور علا حیدر، بوعلی مہدی ضرور موجود ہوں ۔بعض اوقات مخدوم صاحب بغیر وقت لئے پہنچ جاتے تو مخدوم صاحب کو بھی ڈانٹ پڑتی اور ہمیں بھی کھانی پڑتی لیکن آغا جی اپنی خاص دعاؤں کے اوقات میں بھی مخدوم نزاکت نقوی کو وقت ضرور دیا کرتے تھے کیونکہ آقای موسوی کو ہردم ملت کے حقوق ، اس کے تشخص کے دفاع کی فکر رہتی اور مخدوم نزاکت نقوی آقای موسوی کے ہراول دستے میں شامل تھے ۔
لالہ نزاکت کو اپنے گاؤں شاہ اللہ دتہ سے بہت محبت تھی وہ پورے ملک سے ذاکرین کی کہکشاں جمع کرتے تھے تو کئی لوگ انہیں کہتے کہ آپ یہ پروگرام پنڈی یا اسلام آباد شہر میں کسی جگہ کروالیں تو ہمیشہ یہی کہتے اس زمین کا مجھ پر قرض ہے جو میں ذکر حسین ؑ کے بیش بہا خزینے کے طور پر اپنی مٹی کو لوٹا رہا ہوں جب شاہ اللہ دتہ کی سڑک ٹوتی ہوئی تھی تب بھی مخدوم صاحب کی مجلس کے موقع پر شاہ اللہ دتہ کی سرزمین پورے پاکستان سے بانیان عزاداروں مخادیم سے بھر جاتی عرش و فرش پر محیط عزائی کائنات میں شاہ اللہ دتہ کی پہچان شاہ اللہ دتہ پیر ؒ کے بعد مخدو م نزاکت نقوی کے دم قدم سے ہی ہوئی اور رہے گی۔ آج شاہ اللہ دتہ اسلام آباد کا دل بن چکا ہے اسے یہ مقام دلانے میں مخدوم نزاکت نقوی کا کردار ہمیشہ یاد رہے گا۔
مخدوم نزاکت نقوی اپنی ہر مجلس پر قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی ؒ کی تصاویر والے کیلنڈر شائع کرتے 2007 میں انہیں کہا کہ لالہ تصویروں کے ساتھ اگر مرکز کی کارکردگی بھی سامنے آئے تو بہت ضرور ی ہے کیونکہ مرکز کے پاس لٹریچر کی اشاعت کے زیادہ وسائل بھی نہیں ہم نے تو جیسے لالے کے دل کی بات کہہ دی ۔۔۔لالہ جی کا آرڈر ہوا فوری تیار کرواور پھر دن رات کی محنت سے 56صفحات پر مشتمل آئینہ عمل تیار ہوا۔ جب اس پمفلٹ پر برائے ایصال ثواب لکھنے کا پوچھا تو کہنے لگے اس پر سب خطباء ذاکرین اور بانیان کے نام لکھے جائیں ۔ پھر آغا علی حسین نجفی ، باوا قاسم شاہ جی کی مشاورت سے مرحوم ذاکرین و محسنین عزائے حسین ؑ کے نام لکھے گئے مخدوم نزاکت نقوی کا کہنا تھا کہ یہ نام ہماری نسل کو یاد ہونے چاہئیں۔
آئینہ عمل کی تیاری میں روزو شب لمحہ بہ لمحہ مخدوم نزاکت نقوی کے ساتھ مربوط رہے تھوڑی تھوڑی دیر بعد لالہ کی کال آتی فلان ذاکر کا نام بھی لکھنا فلاں عزادار کا نام بھی لکھنا گویا مخدوم نزاکت نقوی پنجاب کی تاریخ عزا کا ایک انسائیکلو پیڈیا تھے ۔وہ کتابچہ شائع کرواکے مخدوم نزاکت نقوی سب سے پہلے مخدوم ظفر نقوی کی مجلس پر ڈیرہ غازی خان لیکر گئے ۔ دوسری بار اس کو دوبارہ گامے شاہ شہداء کے چہلم پر اخباری صورت میں شائع کیا گیا۔
اپریل 2009میں صوفی محمد کی بندوق کے زور پر پاکستانی پارلیمنٹ نے نظام عدل ریگویشن صرف 5 منٹ میں منظور کرلیاجو پارلیمانی تاریخ کا انوکھا واقعہ تھا لاہور کے مشہور شیعہ مدرسے سمیت ملک کی تمام مذہبی سیاسی جماعتوں نے یا تو اس پر خاموشی اختیار کی یا اس کا ساتھ دیا۔ایسے لگتا تھا تھا کہ سوات سے چلنے والے دہشت کے سیلاب سے اسلام آباد چند دنوں کے فاصلے پر ہے ایسے میں قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی ؒ کی دلیرانہ آواز نے وطن عزیز کو ہلا ڈالا کہ ’ شریعت صرف شریعت محمدی ؐ ہے کسی صوفی محمد ی شریعت کو نہیں مانیں گے اور پارلیمنٹ سے پاس کردہ بل نظام عدل نہیں نظام جنگ و جدل ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا‘‘۔ اگلے ہی ماہ مئی میں شاہ اللہ دتہ میں مخدوم نزاکت شاہ کی میزبانی میں شہادت خاتون جنت کی مجلس میں ذاکرین نے آقای موسوی کے موقف کی بھرپور تائید کی ۔یہ پہلا بڑا اعلامیہ تھا جو شہید ناصر عباس نے شاہ اللہ دتہ کی سرزمین پر پڑھا جس کی گرج اور دھمک پوری دنیا میں سنی گئی ۔
سال 2009کے پانچویں مہینے سے 2013کے بارہویں مہینے تک شہید علامہ ناصر عباس نے مخدوم نزاکت حسین نقوی کی سپورٹ اور زور پر اپنے عقیدے کے ساتھ وابستگی اور عشق، آقای موسوی ؒ کی معرفت اور ان کے ساتھ وابستگی ، اپنے موقف پر استقامت ، بہادری دانشمندی وفاداری کی جو تاریخ لکھی وہ صدیوں پر بھاری ہے ۔ گامے شاہ کے شہداء کا چہلم ، پنجاب بھر میں عزاداری کے تاریخی اجتماعات میں ملت کی بیداری کا سبب بننے والے اعلامیے ، عزاداری سید الشہداء کے خلاف بھانک سازشیں ، ذاکروں کو پھنسا کر انہیں دبانے اور پھنسانے کے بھونڈے حربے ، ایک صوبائی حکومتی مشیر کی سرپرستی میں ایک جماعت کو ابھارنے کا منصوبہ ،علامہ ناصر عباس کی اسیری اور سمجھوتے سے انکار، علامہ ناصر عباس پر کیسز کا اندراج ، چیف جسٹس افتخار چوہدری کی دشمنی ۔۔۔۔کرب اور دکھ میں لتھڑی عشق اہلبیتؑ کی داستان ہے ۔
مخدوم صاحب کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ہی ایک خوفناک سازش کے تحت مراجع عظام کو گالم گلوچ کا سلسلہ شروع کردیا گیا قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی ؒ کی جانب سے ہمیشہ مراجع کے احترام کی بات کی گئی ان کے بقول اس سازش کا مقصد ذاکرین کو منبروں سے ہمیشہ کیلئے اتارنا ہے جس کی پہلی قسط پاکستان کے ایک مشہور شاعر اور ذاکر کی کربلا ئے معلی میں گرفتاری کی صورت سامنے آئی ، آقای موسوی کو اس سازش کا ادراک تھا ذاکرین کے تحفظ کیلئے مرکز نے جو کام کئے وہ علیحدہ تحریر کے متقاضی ہیں قضہ مختصر یہ کہ والعصر ٹی و ی پر جاری ہونے والے آقای موسوی ؒ کے روحانی فرزند مخدوم نزاکت نقوی کے ایک بیان نے مکتب تشیع ،ذکر حسین ؑ اور ذاکری کے خلاف اس سازش کو تار تار کردیا۔
مخدوم نزاکت نقوی کیخلاف انتہائی مکروہ پروپیگنڈے بھی کئے گئے ہمیں یہ سعادت بھی حاصل ہےکہ مخدوم نزاکت نقوی کے کردار کو اجاگر کرکے ان کے مخالفین حاسدین کے دانت بھی کٹھے کئے ۔ جو کوئی میسیج مرکز، تحریک تحفظ ولاء و عزا و حرمت سادات کے خلا ف شیئر ہوتا لالہ ہم سے ضرور شیئر کرتے ہم انہیں یہی کہتے لالہ آپ کی کامیابی کی یہی دلیل ہے کہ آپ کا دشمن آپ اور آپ کے مرکزکی کارکردگی پر بے چین اور مضطرب ہے ۔
پنڈی بھٹیاں کانفرنس میں جب یہ ترشح ہوا کہ ذاکرین کو بدعقیدہ عناصر کے قدموں میں جھکایا جا رہا ہے اور اس پر مرکز تشیع کا واضح اور اٹل موقف بھی موجود تھا اس حوالے سے ایک تاثر یہ پیدا ہوا کہ شاید مخدوم نزاکت نقوی کے موقف میں حرمت سادات اور عقائد حقہ کے حوالے سے موقف میں کوئی نرمی آگئی ہے ۔۔۔۔ اس حوالے سے اپنی مجلس سے ایک دن پہلے لالہ نزاکت کی کال آئی اور پوچھا کہاں ہو بتایا کہ میں جامعۃ المرتضی ہوں تو کہنے لگے وہیں آرہا ہوں ۔ کچھ ہی دیر بعد مخدوم نزاکت نقوی جامعۃ المرتضی پہنچ گئے میں نے اند ر تشریف لانے کو کہا تو کہنے لگے نہیں گاڑٰ ی میں بیٹھو ۔لالہ نزاکت نے گاڑی سائیڈ پر پارک کی اور پہلے آغا علی حسین نجفی کو فون ملایا ان سے بھی مشاورت کی اور مجھے کہنے لگے کہ جا کر آغا جی (قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی ؒ ) کو میرا پیغام دے دینا کہ میں آپ کا حلالی بیٹا ہوں ساری دنیا کو چھوڑ دوں گا تحریک اور اپنے عقیدہ کو نہیں چھوڑ سکتا ۔۔۔پھر مخدوم نزاکت نقوی صاحب نے کچھ اقدامات اٹھائے جن پر اگر ذاکرین آج بھی عمل کریں تو دنیا کی کوئی طاقت نہ انہیں ڈرا سکتی ہے نہ جھکا سکتی ہے ۔۔۔ان اقدامات پر کچھ دوست ان سے عارضی طور پر ناراض بھی ہوئے لیکن پھر لالہ نے مجھے خود ایک دن بتایا ۔۔۔جو میرے اٹل موقف پر ناراض تھے وہ خود مجھ راضی کررہے ہیں اور کہتے ہیں مخدوم تو حق پر تھا اور ہے یہ بتا تیرے پیچھے کون سی طاقت ہے جو تجھے جھکنے نہیں دیتی تو میں (مخدوم نزاکت )نے یہی کہا کہ میری کمر مرد فقیر آغا سید حامد علی شاہ موسوی ؒ کی دعاؤں سے مضبوط ہے ۔
لالہ جب بیمار تھے تو آئے روز ان کی عیادت کیلئے پنڈورہ حاضری ہوتی ڈاکٹر اشتیا ق کاظمی اور ان کے برادران مداح شاہ ، التجا نقوی ، بھتیجے ضیا نے ہرممکن علاج کروایا لیکن ۔۔جب احمد مرسل ؐ نہ رہے کون رہے گا۔۔۔وہ روز کبھی نہیں بھولے گا جب میں علالت کی وجہ سے خود بھی ہسپتال میں ایڈمٹ تھا ور 15اکتوبر کی سحر کے وقت بو علی مہدی بھائی کی کال آئی کہ لالے کا پتہ چلا وہ دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں اس کے بعد جو اپنی حالت تھی اسے دیکھ کر ہسپتال کے ستاف کو مجھے مجبورا چھوڑنا پڑا اور میں دیوانہ وار پنڈوڑہ پہنچا جہاں پورا شہر جمع ہوا جا رہا تھا ۔ لالے کو مرحوم دیکھنے کا کبھی تصور بھی نہ کیا تھا ۔۔۔مداح بھائی سے پوچھا کہ قبر کہاں کر رہے ہیں تو انہوں نے بتا یا کہ باوا ذاکر شاہ جی کے ساتھ تو انہیں کہا کہ نہیں لالے نے اپنے دادا شاہ اللہ دتہ ؒ کا نام اور تعلیمات پوری دنیا میں روشن کیں ان کی آخری آرامگاہ وہیں بننی چاہئے اسرار شاہ جی قبر کی کھدائی کا کام شروع کروا چکے تھے ان سے بھی فون پر یہی درخواست کی پھر شانی شاہ جی (ذیشان نقوی ڈپٹی میئر اسلام آباد) کو واٹس ایپ پرکربلاکال کی جو اربعین کیلئے وہاں موجود تھے ۔ انہوں نے میری بات سے اتفاق کیا اور کہا کہ سیٹنگ کرتے ہیں اور پھر کچھ ہی دیر بعد ان کا فون آیا کہ مخدوم صاحب کی قبر سلطان الاولیاء حضرت شاہ اللہ دتہ کے مزار کے اندر ہی ہوگی اورپھر وہ انمول موتی اپنے دادا کے ساتھ آسودہ خاک ہو گیا ۔ ایک انمول ہیرا ایک بے مثل تاج میں جا کر جڑ گیا۔۔۔۔
لالہ ایام عزا میں رخصت ہوئے تھے لہذا مولا حسین ؑ کے غم تلے لالہ کے صدمے کو بھلائے رکھا لیکن لالہ کی خدمات کو یاد رکھنا انہیں اجا گر کرنا ہم پرلازم ہے مخدوم نزاکت نقوی کی زندگانی ایک سبق ہے جسے یاد رکھنا فرض اور بیان کرنا ادائیگی ٔ قرض ہے وہ پوری قوم کا ورثہ ہے اسی لئے یہ چند سطریں تحریر ہو گئیں۔
لالہ محبت اور دوستی کا ایک بحر بیکراں تھا جو انہیں ملتا انہیں کا ہو جاتا تھا ان سے ملنے اور مربوط رہنے والے ہر شخص کا یہ ہی بھرم ہے کہ مخدوم نزاکت اسی سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں ۔ راجہ جہانداد صاحب ، علامہ اعجاز حسین صاحب ، نجم شاہ جی ، مادر ملت جعفریہ کی بلندی درجات کیلئے مجالس کا انعقاد ، سانحہ ڈھوک سیداں کے شہداء کا چہلم ، یوم انہدام جنت البقیع کے پروگراموں کو منظم مرتب کرنا۔۔۔مخدوم نزاکت نقوی سے وابستہ اتنی یادیں ہیں کہ اگر لکھتا رہوں تو یہ مضمون شا ید کبھی ختم نہ ہو، مرحوم کی یادیں اور باتیں کئی کتابوں کا میٹیریل ہے جو ہمیں اس لئے محبوب ہے کہ یہ رہبر تشیع آقای سید حامد علی شاہ موسوی مرکز تشیع تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے ساتھ جڑا ہے ۔
مخدوم نے اپنی زندگی کے بہت سے رازوں کا بھی امین بنایا جو ان کی محبت کی نشانی تھی مخدوم اپنے بہن بھائیوں علاقے گاؤں سب سے بہت محبت کرتے تھے سب کی خیر بلندی چاہتے تھے لیکن جتنی محبت انہوں نے ذکر حسین ؑ، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور آغا سید حامد علی شاہ موسوی ؒ سے کی اس کی کوئی مثال نہیں ، مرکز سے محبت کی بڑی وجہ یہی تھی کہ ان کا ایمان تھا کہ ذکر حسین ؑ کی روحانیت اور بزرگوں کی محنتوں کا تحفظ صرف آقای موسوی کی تعلیمات میں ہے ۔پاکستان کا ہر ذاکر مخدوم نزاکت حسین نقوی کا مقروض ہے اور وہ قرض مخدوم نزاکت حسین نقوی کے نقش قدم پر چل کر ہی اتارا جا سکتا ہے ۔