پنجاب کے اہل تشیع نے یا لثارات الحسینؑ کا پرچم کیوں بلند کیا ؟
ذکرِ حسین ؑپر عائد غیر آئینی پابندیاں
(تحریر: حسن کاظمی )
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ہوم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے یکم محرم الحرام تا آٹھ ربیع الاول ایام عزائے حسینی کے مجالس و جلوس کی مینجمنٹ کےلیے متنازعہ قواعدوضوابط نافذ کر دیئے گئے ہیں جنہیں انگریزی میںStandard Operating Procedures یا اختصار کے لیے SOPکہا جاتا ہے ۔ان قواعد و ضوابط یا ایس او پیز کے ذریعہ ذکرِ حسینؑ کی مجالس و جلوسوں پر حکومت کی جانب سے غیر آئینی و غیر جمہوری پابندیاں عائد کی جارہی ہیں جن کے باعث صوبہ بھر میں عزاداری ِ حسین ؑکے پروگراموں کو منجمد کر کے عزاداری کو بتدریج کم کرنے اور ملتِ تشیع کے مذہب میں رخنہ اندازی اور عبادات میں بے جا رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں۔ یہ حکومتی پابندیاں آئینِ پاکستان میں درج مذہبی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے بھی منافی اور اہلِ تشیع کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے مترادف ہیں۔ ان پابندیوں کی تفصیل درج زیل ہیں:
• پاکستان کے آئین اور دنیا بھر میں تسلیم شدہ بنیادی انسانی حقوق کے مطابق ہر شہری کو اپنی چاردیواری کے اندر مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ جیسے چاہے اپنی عبادات اور مذہبی رسومات بجا لائے تاہم ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے متنازعہ ایس او پیز کے ذریعہ گھر اور امام بارگاہ کی چاردیواری کے اندر بھی مجلسِ حسینؑ کے انعقاد کو ضلعی انتظامیہ کی پیشگی اجازت نامہ کے حصول سے مشروط قرار دے کرصوبہ بھر میں انتظامیہ کے افسران کو سختی سے پابند کر دیا گیاہے کہ کسی بھی عزادار کو اپنی چاردیواری کے اندربھی کسی نئی مجلس عزا یا پرسہ داری کے لیے اجازت نامہ جاری نہ کیا جائے اور بلا اجازت چاردیواری کے اندر بھی فرزند رسولؐ امام حسین ؑ کی مجالس یا پرسہ داری منعقد کرنیوالوں کو سختی سے روکا جائے اور باز نہ آنیوالوں کے خلاف پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج کی جائے اور انہیں گرفتار کیا جائے۔ لہٰذا کوئی شہری اگر انتظامیہ سے اجازت نامہ حاصل کیے بغیر اپنے گھر کے اندر بھی کوئی نئی مجلس عزا منعقد کرتا ہے تو پولیس کی جانب سے اسے بزور قوت روکا جاتا ہے اور باز نہ آنے والوں کے خلاف مقدمات درج کر دیے جاتے ہیں۔ذرا سوچیں کہ ملک بھر میں نئے شہر آباد ہو رہے ہیں،نئی آبادیاں اور سوسائٹیاں قائم ہو رہی ہیں جن میں نئی مذہبی محافل، دروس، وعظ و اذکار سمیت ہر قسم کے پروگرام اور اجتماعات منعقد ہو رہے ہیں لیکن فقط ذکرِحسین ؑ کی نئی مجلس یا پرسہ داری پر پابندی ہے جو مکتب تشیع کے ساتھ سراسر زیادتی اور امتیازی سلوک ہے ۔
• پنجاب میں انتظامیہ کی جانب سے ضلعی سطح پر عزاداری کے لائسنسی اور روایتی مجالس و جلوس کا سرکاری ریکارڈ /شیڈول مرتب کیا جاتا ہے ۔ صوبہ کے مختلف اضلاع میں اس سرکاری شیڈول میں انتظامیہ کی جانب سے بعض روائیتی مجالس و جلوس کو شامل نہیں کیا گیا ۔ جو پروگرام انتظامیہ نے شیڈول میں شامل نہیں کیے وہ اگر گذشتہ کئی عشروں سے بھی منعقد ہوتے آر ہے ہیں تو اب ان کے انعقاد کی اجازت نہیں ہے اور انہیں بھی نیا پروگرام قرار دے کر زبردستی روکا جا رہا ہے اور ان کے خلاف مقدمات بنائے جارہے ، یعنی سرکاری شیڈول کی غلطیوں کو درست کرنے کے بجائے الٹا عزاداری کو روکا جارہا ہے ۔
• صوبہ پنجاب میں طویل مدت سے نئی مساجدو امامبارگا ہ کے قیام پر ایک غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے اور حکومتی انتظامیہ کی جانب سے ان کے قیام کی اجازت جاری نہیں کی جارہی ۔اگر کوئی شخص اپنی ہی ملکیت و جائیداد کو مسجد و امامبارگاہ کیلئے وقف کر نا چاہے تو اسے مسجد و امامبارگاہ کیلئے این او سی جاری نہیں کیا جاتا جبکہ سرکاری اجازت نامہ کے بغیر مسجد و امامبارگاہ قائم کرنیوالوں کے خلاف مقدمات درج کیے جار ہے ہیں۔
یہ امر ذہن نشین رہے کہ وطن عزیز پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا جس کی وجہ سے آئین کے مطابق پاکستان کا سرکاری مذہب کوئی فرقہ نہیں بلکہ اسلام ہے ۔مادر وطن پاکستان کی بقا و تحفظ کیلئے لازم ہے کہ پاکستان کے نظریہ اساسی کی حفاظت کرتے ہوئے اسےفرقہ وارانہ سٹیٹ میں تبدیل کرنے کے ہر متعصبانہ اقدام کی مخالفت کی جائے ۔ قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی کے فرمان کے مطابق عزاداری ِ حسین ؑ حق و باطل کے مابین حد فاصل قائم رکھنے کا ذریعہ اور ہر دور میں ظلم و بربریت اور یذیدیت کے خلاف کائنات کا پر امن ترین احتجاج ہے جو نہ صرف ہماری عبادت بلکہ روحِ عبادات ہے۔یہی وجہ ہے کہ ضیائی مارشل لا کے تاریک دور میں جب عزاداری پر ناروا پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی گئی تو آقائے موسوی نے انہیں مسترد کرتے ہوئے عزاداری کے آئینی حق کے تحفظ کیلئے آٹھ ماہ کےطویل ایجی ٹیشن کے ذریعہ اسے ناکام بنایا اور مذہبی آزادی کے حق میں21 مئی 1985کا تاریخ ساز موسوی جونیجو معاہدہ حاصل کیا جو ملت ِتشیع کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ آقائے موسوی نے عزاداری ِ حسین ؑ کو سیدہ زینب ؑ و زین العابدین ؑ کی امانت اور ملت تشیع کی شہ رگِ حیات قرار دیا اور زندگی بھراس مقدس امانت کا تحفظ یقینی بنایا ۔ آج جب عزاداری کو محدود و مسدود کرنے کے لیے حکومتی مشینری کا استعمال کیاجارہا ہے تو افکار ِ موسوی کے ورثہ دار،مشن ِ ولا و عزا کے پیروکار تحفظِ عزاداری کیلئےہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہو چکے ہیں، مرکزِ مکتبِ تشیع علی مسجد راولپنڈی سےسربراہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ علامہ آغا سید حسین مقدسی نے آقائے موسوی کی تاسی میں عزاداری کے آئینی حق کے دفاع کیلئے یا ثارت الحسین ؑ کا علم بلند کر دیا ہے اور اس سلسلہ میں راولپنڈی میں تحفظ ِ عزاداری کنونشن کا عظیم الشان احتجاجی اجتماع 23 نومبر 2024کو دربار سخی شاہ پیارا کاظمی الموسوی چوہڑ ہڑپال میں منعقد ہوگا ۔