کس کا عَلَم حسین ؑکے منبر کی زیب ہے
سقائے اہلِ بیت ؑ کے حضورکلام : میرزا سلامت علی دبیر (بشکریہ urduweb.org)کس کا عَلَم حسین ؑکے منبر کی زیب ہےکسی جنتی کی مشک سے کوثر کی زیب ہےلشکر ہے اُس کی زیب وہ لشکر کی زیب ہےچہرے کی فرد مالکِ دفتر کی زیب ہےرفعت علم کی کہتی ہے ہر عقل مند سےسقے پہ پڑھ درود صدائے بلند سےکس کے علم کے سائے سے طوبیٰ نہال ہے؟سقہ ازل سے کون بہشتی جمال ہے؟ہر ماہ کس قمر کا عروج و کمال ہے؟وہ رشکِ بدر، حیدرِ صفدر کا لال ہےکہتے ہیں شیعیانِ علی کہہ کے ‘یا علی’عباس میں ہے دبدبۂ مرتضیٰ علییہ اس کی بارگاہِ ملائک پناہ ہےدربارِ حق میں جس کی محبت سے راہ ہےفوجِ خدا گواہ، خدا بھی گواہ ہےعباس، شیرِ بیشۂ شیرِ الٰہ ہےتصویر ہے یہ فاتحِ بدر و حنین کیشمشیر ہے خدا کی، سپر ہے حسین کیکیوں حرفِ عین افسرِ عرشِ جلیل ہے؟کیوں حرفِ با بہشتِ بریں میں دخیل ہے؟کیوں اوجِ آسماں کی الف سے دلیل ہے؟کیوں سین سربسر سندِ سلسبیل ہے؟سب صورتوں سے حق نے فضائل دکھائے ہیںعباس کے خطاب میں یہ حرف آئے ہیںعرشِ بریں غبار ہے کس بارگاہ کامہرِ مبیں نگینہ ہے کس رشکِ ماہ کاکس کا علم نشان ہے فضلِ الٰہ کاکس کی وِلا چراغ ہے کوثر کی راہ کاپھرتے ہیں کس کے دستِ بریدہ نگاہ میںڈوبے ہوئے ہیں پنجتنی کس کی چاہ میںکس کے علم سے پنجۂ خورشید زرد ہےیہ دھوپ کس کے مرقدِ انور کی گرد ہےکس کی ضیا سے چاند کا بازار سرد ہےچہرہ وہ ہے کہ دفترِ قدرت میں فرد ہےان کے سخن سے جوہرِ تیغ آشکار ہیںخود سیفِ ذوالجلال ہیں، لب ذوالفقار ہیںصلِ علیٰ، یہ شاہِ شہیداں کا بھائی ہےمشکل کشائی آپ نے بابا سے پائی ہےشانے نہیں پہ ہاتھ میں مشکل کشائی ہےتیغِ خدا کے قبضے میں ساری خدائی ہےسقائے شاہِ خشک لباں یہ دلیر ہےدریائے آبرو کی ترائی کا شیر ہےفولاد کی ضریح میں کس کا مزار ہےنمگیرہ جس کا رحمتِ پروردگار ہےباہم ضریح و قبر سے نور آشکار ہےاِس کی بہار وہ ہے یہ اُس کی بہار ہےقبر و ضریح سے ہے نمود آب و تاب کیوہ آفتاب ہے یہ کرن آفتاب کیتربت بھی اور ضریح بھی ہے نور سے بھریصاحب مزار ماہِ بنی ہاشمی، جریتربت پہ وہ ضریح مشبک نہیں دھریاُترا ہے برجِ سنبلہ بہرِ مجاوریکیا قبر نے ضریح کے رتبے بڑھائے ہیںحور و ملک نے دیدۂ حق بیں چڑھائے ہیںروضے کا فرش قدسیوں کی پاک دامنیجھاڑوں سے دونوں وقت ہے دنیا میں روشنیکیا جانے واں کی خاک ہے کس نور سے بنیہنگامِ صبح دھوپ، سرِ شام چاندنیآتی ہے یہ ندا جو درِ روضہ وا کروخیبر کشا! محبوں کی حاجت روا کروروشن چراغ شمعوں سے عقل و شعور کاپروانوں کے پروں میں پرا فوجِ حور کاقندیل کہہ رہی ہے: میں ایماں ہوں طور کاتربت کا یہ سبق ہے کہ سورہ ہوں نور کاکیوں کر پڑھیں نہ معتقدِ خاص فاتحہالحمد کی ندا ہے بہ اخلاص فاتحہپیارے ستون و سقف ہیں عرشِ جلیل کوجیسے عصا کلیم کو کعبہ خلیل کوقُبّے کی تازگی سے حیا سلسبیل کوسدرہ کی راہ بھولتی ہے جبرئیل کودبتا ہے چرخ گنبدِ انور کی شان سےجس طرح پیر زور میں عاجز جوان سےحاضر جو اس جناب کی درگاہ میں ہوا!گھر اس کا شاہ کے دلِ آگاہ میں ہواجو غرق حبِ ابنِ ید اللہ میں ہوا!نہرِ لبن سے بہرہ ور اس چاہ میں ہواقربان ہے عرش زائرِ مولا کی شان پرسر آستان پر ہے قدم آسمان پرہونے کو تو جہان میں کیا کیا نہیں ہواپر حضرتِ حسین سا آقا نہیں ہواعباس سا حسین کا شیدا نہیں ہواسقہ شہید نہر پہ پیاسا نہیں ہوایہ آب و گِل میں حبِ شہِ نیک خو ملیجتنی تھی پیاس اس کے سوا آبرو ملیسقائیِ حسین کی مدت تمام ہےپیاسی سکینہ ہے نہ شہِ تشنہ کام ہےاب کیوں حضور کا لبِ دریا مقام ہے؟درپیش اپنے خاص غلاموں کا کام ہے!اب جو کنارہ کش نہیں دریا سے ہوتے ہیںشیعہ گناہ کرتے ہیں عباس دھوتے ہیںچشمِ کرم ہے شیعوں کے حالِ تباہ پرجیسے خدا کی مِہر حسینی سپاہ پریوں بند ہے زبانِ سخن عذر خواہ پرجیسے کھلا ہوا درِ توبہ گناہ پرمشرق کا سکہ مِہر ہے مغرب کا ماہ ہےدن رات اختیارِ سفید و سیاہ ہےبے دست و پا کے کام سرِ دست آتے ہیںپاؤں کے ناخنوں سے گرہ کھول جاتے ہیںقاتل کو طُرفہ زورِ شہادت دکھاتے ہیںشب کو اسے جَلاتے ہیں دن کو جلاتے ہیںسب اُن کے اختیار سے بے اختیار ہیںکیا کہیے اور قدرتِ پروردگار ہیںکہتا ہے اک مجاورِ فرزندِ مرتضیٰشب کو بھی باریاب میں ہوتا تھا بارہااک شخص دفن صحنِ علم دار میں ہوااُس شب گیا جو روضے میں تو دیکھتا ہوں کیاآ کر گرا وہ شعلہ کہ شورِ فغاں اٹھافانوسِ قبر جلنے لگی اور دھواں اٹھامردے نے پھر تو دھوم مچائی دُہائی ہےاے حضرتِ حسین کے بھائی، دُہائی ہےنارِ سقر جلانے کو آئی، دُہائی ہےیاں بھی نجات ہم نے نہ پائی، دُہائی ہےسقائے دخترِ شہِ ابرار، الغیاثعباس الغیاث، علم دار الغیاثاُس عارضِ سکینہ کی مولا تمہیں قسمشمرِ لعیں کی جس پہ لگی سیلیِ ستماُس ناتواں کے واسطے، اے صاحبِ کرم!جو بیڑیوں کے بوجھ سے گرتا تھا ہر قدممجھ سے فلک کے رنگ بدلنے کو دیکھیےروضے کو اپنے اور مرے جلنے کو دیکھیےکہتا تھا یہ کہ نار وہیں نور ہو گئیزیرِ کفن جو آگ تھی کافور ہو گئیفانوسِ قبر قمقمۂ طور ہو گئیآئی ندا کہ خوش ہو بلا دور ہو گئیہم کو رلا دیا جو ترے شور و شین نےتجھ کو بچا لیا مرے آقا حسین نےکیوں مومنو! کہاں سے کہاں ہے یہ معجزہآیاتِ کبریا کا نِشاں ہے یہ معجزہعاجز کنندۂ دو جہاں ہے یہ معجزہدشمن بھی کہہ رہے ہیں کہ ‘ہاں ہے یہ معجزہ’عباس چاند ہیں شہِ بدر و حنین کےلیکن یہ سارے جلوے ہیں حبِ حسین کےدیکھی جہاں ضریح شہِ کم سپاہ کیپہلو میں اس کے اُن کے علم پر نگاہ کیشربت پہ ہے جو نذرِ شہِ دیں پناہ کیحاضر ہے حاضری بھی علمدارِ شاہ کیکچھ شیعہ ‘یا حسین’ بصد یاس کہتے ہیںکچھ رو کے ‘ہائے حضرتِ عباس’ کہتے ہیںوہ رازِ حق، تو سینۂ مشکل کشا یہ ہیںعلمِ خدا وہ ہیں، تو دلِ مرتضی یہ ہیںحسنِ قبول وہ ہیں، علی کی دعا یہ ہیںعیسیٰ گواہ ہیں کہ شفا وہ، دوا یہ ہیںغازی کے سر پہ شاہِ حجازی کے ہاتھ ہیںحق ہے علی کے ساتھ، علی حق کے ساتھ ہیںبچپن سے تھے یہ عاشقِ سلطانِ مشرقینطاعت خدا کی جانتے تھے طاعتِ حسینآقا کے دیکھنے کو سمجھتے تھے فرضِ عیناور بے طوافِ کعبۂ رخ، دل کو تھا نہ چینجھکنا قدم پہ شاہ کے معراج تھی اُنہیںنعلینِ ابنِ فاطمہ سرتاج تھی اُنہیںلیتے تھے اٹھتے بیٹھتے شبیر کا جو نامہنس ہنس کے اُن سے والدہ کرتی تھی یہ کلامتم کون ہو حسین کے؟ یہ کہتے تھے، غلاموہ پوچھتی تھی، کچھ سند اے عاشقِ امام!قیمت میں کیا دیا ہے شہِ مشرقین نےکتنے کو – واری – مول لیا ہے حسین نےیہ کہتے تھے: غلام بھی حاضر جواب ہےاس بات کی حضور، نہیں دل کو تاب ہےدعویٰ تمہیں بتول سے کیا اے جناب ہے؟کہتی ہو، میری بی بی وہ عفت مآب ہےآقا ہے یہ مرا جو وہ بی بی تمہاری ہےقیمت جو آپ کی وہی قیمت ہماری ہےبے ساختہ لپٹ کے وہ کہتی تھی ‘مرحبا’کیا ڈھونڈ کر جواب دیا، واری، واہ واتیوری نہ اب چڑھائیے، بس غصہ ہو چکاکچھ خیر ہے میں ہنستی تھی، تم ہو گئے خفاشفقت رہے مُدام شہِ مشرقین کیروزی نصیب تم کو غلامی حسین کیاب روئیں مومنین کہ شبیر روتے ہیںنامی جواں تو گنجِ شہیداں میں سوتے ہیںبچے تمام پیاس سے جاں اپنی کھوتے ہیںاور اب جدا حسین سے عباس ہوتے ہیںخالی رفیق و یار سے ہے پہلوئے حسینکس وقت توڑتی ہے اجل بازوئے حسینآرام جانِ فاطمہ اب بے قرار ہےرو دیتے ہیں، کچھ اور نہیں اختیار ہےاتنا ہی غم ہے جتنا کہ بھائی کا پیار ہےپھر ماتمِ علیِ ولی رُو بَکار ہے!حضرت کو موت ان کی جدائی کا داغ ہےیہ داغ اور کا نہیں بھائی کا داغ ہےپوچھو علی کی روح سے یہ حالِ دردناککیسا کفن، جگر ہے امیرِ عرب کا چاکاب تک نجف میں کانپ رہا ہے مزارِ پاککہتے ہیں انبیائے سَلَف یہ اڑا کے خاکعباس نام ناموری داشتی چہ شد؟یا مرتضی علی! پسری داشتی چہ شد؟جب رن میں گل چراغِ مزارِ حسن ہوایعنی شہید قاسمِ گل پیرہن ہوارختِ شہانہ لاش کی خاطر کفن ہواحجلہ دولہن کے واسطے بیت الحزن ہواغل تھا اُدھر تو دولہا کو مہمان روتے ہیںیاں شاہ سے وداع علمدار ہوتے ہیںہوتا ہے بے پسر پدرِ شیعیانِ پاککیسا کفن، جگر ہے امیرِ عرب کا چاکچھپتا ہے چاند ہاشمیوں کا بزیرِ خاکافلاک پر ہے فاطمہ کی آہِ دردناکواں عرش ہل رہا ہے فغانِ حسین سےیاں حشر ہے حسینیوں کے شور و شین سےتصویرِ خاصِ حیدرِ کرار مٹتی ہےتفسیرِ نورِ خالقِ غفار مٹتی ہےلشکر کے بعد شکلِ علمدار مٹتی ہےشیعوں کے بادشاہ کی سرکار مٹتی ہےافسوس، جس کی مادرِ بیوہ وطن میں ہےباری اب اُس جوان کے مرنے کی رن میں ہےتمہید شہ سے بہرِ اجازت اٹھائی ہےجوڑے ہیں ہاتھ، پاؤں پہ گردن جھکائی ہےیوں حرف زن وہ فدیۂ حق کا فدائی ہےسب مر چکے غلام کی باری اب آئی ہےکوثر دیا شہیدوں کو مولا ہمیں بھی دواک قبر کی جگہ لبِ دریا ہمیں بھی دوسوکھے ہیں ساتویں سے لبِ شاہِ بحر و برہوتا ہے خون خشک مرا دیکھ دیکھ کرآنکھیں ملا کے کہتے ہیں خادم سے بدگہرسقائے اہلِ بیت ہو تو آؤ نہر پرتم بھی فقط زبان سے قربان جاتے ہوپانی نہیں امام کو اپنے پلاتے ہو؟دیکھی ہیں جاں نثار نے آنکھیں حضور کیچشمک زنی اٹھے گی نہ اہلِ غرور کیحالت ہے اب تباہ دلِ ناصبور کیآیندہ جو رِضا ہو امامِ غیور کیگو بے کفن ہے بھائی ہر اک اس غلام کاپر مجھ کو غم ہے خشکیِ حلقِ امام کاصِفّین میں بھی گھیرے تھے یہ نہر خود پسندفوجِ معاویہ لبِ دریا تھی بہرہ مندمشکل کشا کی فوج پہ آبِ رواں تھا بندتھی مورچوں سے ‘وا عطشاء’ کی صدا بلندپر مضطرب نہ والدِ عالی صفات تھےاصغر سے ننھے بچے نہ بابا کے سات تھےطاقت دکھائی آپ نے زہرا کے شِیر کیدیکھی گئی نہ پیاس جنابِ امیر کیسقائی کی سپاہِ شہِ قلعہ گیر کیالٹیں صفیں جناب نے فوجِ شریر کیبابا کو لا کے نہر سے پانی پلا دیاسب مر چکے تھے پیاس سے تم نے جِلا دیاآقا نے میرے حقِ پدر یوں ادا کیافرمائیے، غلام نے حضرت سے کیا کیافدوی کو پال پوس کے تم نے بڑا کیابابا کے آگے بھی تمہیں ‘بابا’ کہا کیامیں جانتا ہوں قبلۂ کونین آپ کو!اور دیکھتا ہوں پیاس سے بے چین آپ کواصرار کر کے آپ نے بابا سے لی رضامیں بار بار عرض کروں یہ مجال کیاجو ناز کرتے آپ علی سے وہ تھا بجاسبطِ نبی ہو اور پسرِ اشرف النسا!پڑھتا ہوں کلمہ آپ کے میں نانا جان کاہے فرق مجھ میں تم میں زمیں آسمان کاپانی ہے جب سے بند مجھے انفعال ہےکہتا ہوں دل سے صبر کر اب انفصال ہےحضرت کو آبرو کا مری خود خیال ہےاب بھی مُصِر نہیں ہوں فقط عرضِ حال ہےیوں فوج کو نہ کوئی علمدار روئے گاایسا بھی واقعہ نہ ہوا ہے نہ ہوئے گاصِفّین میں جو پیاسے شہِ ذوالفقار تھےمنہ اُن کا دیکھ دیکھ کے آپ اشکبار تھےپھرتے تھے آس پاس بہت بے قرار تھےعباس کی طرح سے نہ بے اختیار تھےاپنا ہی سا ہر ایک کا دل جان لیجیےاب تو غلام کا بھی سخن مان لیجیے!تم باپ کی جگہ ہو یہ خادم پسر کی جاصفین کا وہ دشت تھا یہ دشتِ کربلاواں اک معاویہ تھا، یہاں لاکھ اشقیاواں ابتدا تھی پیاس کی اور یاں ہے انتہاشامی وہی ہیں اور وہی نہرِ فرات ہےانصاف اب غلام کا آقا کے ہات ہےرو کر کہا حسین نے: دریا پہ جاؤ گے؟عباس پانی لاؤ گے، ہم کو پلاؤ گے!واللہ بھائی داغِ جوانی دکھاؤ گےہم آئے تھے فرات سے پر تم نہ آؤ گےسمجھو تو خیمہ کیوں لبِ دریا سے اٹھ گیاپانی مرے نصیب کا دنیا سے اٹھ گیاصفین میں گیا تھا جو دریا پہ میں حزیںبابا بھی میرے بے کس و تنہا تھے کیا یونہیں؟حیدر کو میرے پانی کے لانے کا تھا یقیںہم کو تو آس آپ ہی کے آنے کی نہیںیہ جان لو جدا جو ہوئے تم تو ہم نہیںکٹنے سے سر کے ٹوٹنا بازو کا کم نہیںبھائی! جدائی بھائی کی، بھائی کی ہے قضابن ہاتھ کا کرے نہ کسی بندے کو خدااکبر عصا ہے میری ضعیفی کا، یہ بجاپر ہاتھ ہی نہ ہوں گے تو بے کار ہے عصاکس درد سے جگر کا مرے سامنا ہوادشوار اب حسین کو دل تھامنا ہواخیمے کے ایک گوشے میں یہ حشر تھا بپااور سن رہی تھی چپکی سکینہ یہ ماجرامولا جو چپ ہوئے تو پکاری وہ مہ لقااے لوگو! یاں تو آؤ کہ یہ گفتگو ہے کیادریا کے آنے جانے کے کچھ ذکر ہوتے ہیںاے لو، چچا بھی روتے ہیں بابا بھی روتے ہیںشہ سے کہا: چچا کو نہ آنسو بہانے دواچھا تو کہتے ہیں، انہیں دریا پہ جانے دوپانی حضور کے لیے لاتے ہیں لانے دوغصے کی آنکھ اہلِ ستم کو دکھانے دوپانی جو آپ کے لیے عباس لائیں گےصدقہ تمہارا ہم بھی کوئی گھونٹ پائیں گےمیں بیچ میں پڑوں جو یہ ضامن کسی کو دیںضامن جو دیں تو روحِ جنابِ علی کو دیںایسا نہ ہو کہ رنج یہ میری چچی کو دیںعباس بولے: آپ تسلی یہ جی کو دیںمولا بھی ہیں حسین مرے اور امام بھیآقا کو بھول جاتا ہے کوئی غلام بھیصدقے چچا، نثار چچا التجا کروکچھ تو سفارش اور برائے خدا کروحضرت سے جو کہا تھا ابھی پھر ادا کروحاجت روا کی پوتی ہو، حاجت روا کروضامن چچا کے آنے کی ہوتی ہو کیوں نہ ہوحلّالِ مشکلات کی پوتی ہو کیوں نہ ہولے لو قسم فرات سے آگے نہ جائیں گےاور جائیں گے تو کیا شہِ دیں لے نہ آئیں گےدل میں کہا امام نے ہاں لاش لائیں گےپر کیوں کر ایسے شیر کا مردہ اٹھائیں گےحضرت نے اس خیال میں دریا بہا دیاعباس کو سکینہ نے مشکیزہ لا دیارو کر پکارے عترتِ اطہار، الوداع!عباس الوداع، اے علم دار الوداعاے زیبِ پہلوئے شہِ ابرار! الوداع!اے نام دارِ حیدرِ کرار، الوداع!جعفر کی روح آپ کے لاشے پہ روئے گیہے ہے اب اس علم کی زیارت نہ ہوئے گیزینب نے بڑھ کے کان میں سقے کے کچھ کہاسنتے ہی بہرِ سجدہ جھکا ابنِ مرتضیٰزینب سے پوچھنے لگیں رانڈیں جدا جداہم سے بھی کہہ دو، بھائی سے ارشاد کیا کیا؟بانچھیں خوشی سے کھل گئیں اس باتمیز کیبولو! قسم حسین کی جانِ عزیز کیرو کر کہا یہ زینبِ عالی مقام نےام البنین پھرتی ہے آنکھوں کے سامنےیثرب سے جب کہ کوچ کیا تھا امام نےکی تھی سفارش اِن کی یہ اُس نیک نام نےجب مشک یہ اٹھائیں سبک دوش کیجیومیری طرف سے دودھ مرا بخش دیجیولوگو گواہ رہیو کہ تم سب کے سامنےاُن کا سخن ادا کیا مجھ تشنہ کام نےکھوئے حواس بیبیوں کے اِس کلام نےپردہ اٹھایا بازوئے شاہِ انام نےجھک کر ہلال برجِ فلک سے نکل گیانورِ نگاہ تھا کہ پلک سے نکل گیاعباس جب کہ جانبِ باغِ جناں چلےشانے پہ لاکھ شان سے رکھ کر نشاں چلےزوجہ نے پوچھا: اے مرے والی، کہاں چلے؟بولے: جہاں سے اب نہ پھریں گے، وہاں چلےاب آخری وداع کی باری نہ آئے گیآئی ہے سب کی لاش ہماری نہ آئے گیعباس سے سنا جو یہ اس تشنہ کام نےدنیا سیاہ ہو گئی آنکھوں کے سامنےاک آہ کی کمر کو پکڑ کر امام نےپردہ اٹھایا بازوئے شاہِ انام نےجھک کر ہلال برجِ فلک سے نکل گیانورِ نگاہ تھا کہ پلک سے نکل گیاپاسِ ادب سے مجرے کو سب دور دور آئےعفوِ قصور کے لیے کبر و غرور آئےغل پڑ گیا، جِلَو کے لیے فوجِ نور آئےہاں لاؤ مرکبِ دورکابہ، حضور آئےآیا سجا سجایا تگاور جناب کا!پاکھر کرن کے تاروں کی، زین آفتاب کاپابوسی کو رکاب کا حلقہ وہاں بنااور اُس دہن میں پائے مبارک زباں بناپھر آستانِ خانۂ زین آسماں بناعرشِ جلیل زینِ تجلی نشاں بناآنسو مگر نہ تھمتا تھا اُس راہوار کایعنی مجھی پہ آئے گا لاشہ سوار کاانگلی سے لکھ کے گردنِ توسن پہ ‘یا علی’اک جست میں سوار ہوا حق کا وہ ولیفی الفور نور و طور کے معنی ہوئے جلیبجلی جلانا بھول کے خود رشک سے جلیٹھنڈی ہوئی ہوا جو یہ گرمِ عناں ہواصرصر کی سانس رک گئی جب یہ رواں ہوارکھنے لگا جو ہاتھ تصور عنان پربگڑا بنا کے منہ کہ نہ کھیل اپنی جان پربولی زمیں ‘کدھر’؟ تو کہا ‘آسمان پر’پوچھا جو آسماں نے، کہا، ‘لامکان پر’یہ کہہ کے فکر و وہم کی حد سے گذر گیاسایہ ہوا سے پوچھ رہا تھا کدھر گیاغل، ہر مکاں سے ‘واہ’ کا تا لامکاں اٹھاایسا جھکا کہ پھر نہ سرِ آسماں اٹھاشعلہ علم کے نور سے اک ناگہاں اٹھاجنگل میں دھوپ جل گئی کوسوں دھواں اٹھاانسان کیسے جان جنوں کی نکل گئیگاوِ زمیں یہ تڑپی کہ مچھلی اچھل پڑیکچھ عقل سے سروں میں نہ بن آئی، گر پڑیتسکین نے کہیں نہ جگہ پائی، گر پڑیہر سقفِ سینہ خوف سے تھرائی، گر پڑیلرزے یہ طاقِ چشم کہ بینائی گر پڑیقائم نہ دین لشکرِ کفار کا رہا۔۔۔ ۔۔۔ وحدتِ غفار کا رہاخیبر شکن کے لال کی آمد ہے صف شکنگرتی ہے فوج فوج پہ، پڑتا ہے رن پہ رنتیغِ خدا کی تیغ کا سایہ ہے تیغ زنغلطاں کہیں قدم ہے، کہیں سر، کہیں بدننے حوصلہ، نہ بغضِ امامِ مبیں رہااب دل میں بھاگنے کے سوا کچھ نہیں رہاآمد کی غلغلے سے پراگندہ ہوش ہیںقبریں کفن سے مردوں کی پنبہ بگوش ہیںگاہک اجل کے شامیِ ایماں فروش ہیںبازار مثلِ شہرِ خموشاں خموش ہیںپیدل جِلو میں خضر اور الیاس آتے ہیںاک دھوم ہے حضرتِ عباس آتے ہیںاب فرقِ روز و شب سپہِ شام کو نہیںہلنے کا ہوش گردشِ ایام کو نہیںدنیا میں آبرو کسی صمصام کو نہیںسُوفار کے لبوں پہ ہنسی نام کو نہیںتیروں سے بے گریز نہ کچھ رن میں بن پڑیترکش میں آستین کی صورت شکن پڑیبڑھ کر کہا عمر نے وحیدِ زماں یہ ہے
ہم نامِ ذوالجلال کا نام و نشاں یہ ہےہاں لشکرِ خدا کا نمودی جواں یہ ہےجعفر شکوہ، حمزۂ صاحب قِراں یہ ہےسیفِ خدا خطاب ہے عباس نام ہےیہ بازوئے حسین علیہ السلام ہےعباس بولے مدح کے قابل امام ہیںبھائی بھی اُن کے بس حسنِ سبز فام ہیںباقی جو اور بھائی ہیں وہ سب غلام ہیںوہ رہنما وہ قبلۂ ہر خاص و عام ہیںگمراہ ہے تو دور ہو، جا اپنی راہ لےورنہ یہ ہے نبی کا علم، آ، پناہ لےذکرِ حسین حور و ملک کا وظیفہ ہےتیرا خلیفہ طالبِ دنیائے جیفہ ہےوہ ہے خلافِ حق یہ نبی کا خلیفہ ہےوہ خود غلط ہے اور یہ خدا کا صحیفہ ہےناداں بتا! خدا کا شناسا نہیں حسین؟لے تو ہی کہہ نبی کا نواسہ نہیں حسین؟یہ رتبہ زر کے زور سے حاشا نہ ہوئے گاادنیٰ ہوا و حرص سے اعلا نہ ہوئے گافرعون جا کے طور پر موسیٰ نہ ہوئے گاحکمت سے اپنی کوئی مسیحا نہ ہوئے گاکس نے دی انگوٹھی رکوع و سجود میںآیا نہ آیہ مثلِ علی مدح وجود میںہر سبز پوش خضر نہیں عز و جاہ میںسرسبز حیدری ہیں جنابِ الٰہ میںیوسف نہ ہوگا لاکھ گرے کوئی چاہ میںدن رات کا ہے فرق سپید اور سیاہ میںکوئی یتیم فاطمہ سا خوش گہر نہیںہر اک یتیم دُرِّ یتیم، اے عمر نہیںچاہے زِرہ بنا کے جو داؤد کا وقارواللہ، جعل ساز ہے، کیا اس کا اعتبارہر بخیہ گر نہ ہو کبھی ادریسِ نام دارہر ناخدا کو ‘نوح’ کہے گا نہ ہوشیارکیا جاہلوں کے عیش کا سامان ہو گیابیٹھا جو تخت پر وہ سلیمان ہو گیاگوسالے نے کیا تھا جو دعویٰ، تو کیا ہواکہہ تو ہی صدق کذب ہوا، بت خدا ہو؟یوں ہی یزید بھی جو خلیفہ ہوا، ہواباطل نہ اُس سے حقِ امامِ ہُدا ہواجس طرح سے خدا کوئی غیر از خدا نہیںیوں ہی بجز حسین امامِ ہُدا نہیںوارث ہر اک نبی کا ہے یہ سیدِ جلیلبیٹے کو ذبح کرنے لگے جس گھڑی خلیلدنبہ ریاضِ خلد سے لے آئے جبرئیلفدیہ ہوا ذبیح کا حیوانِ بے عدیلنعلین اس کے پوست کی ہے شہ کے پاؤں میںاور چتر حق کے سائے کی ہے دھوپ چھاؤں میںقرآں ورق ورق سے سپر ہے حسین کیچشمِ نبی زرہ ہے شہِ مشرقین کیاور تیغِ تیز فاطمہ کے نورِ عین کیہے ذوالفقار فاتحِ بدر و حنین کیاتری تو ہے زمین پہ عرشِ جلیل سےپر کاٹنے کا حال کھلا جبرئیل سےجس کی زمین عرش ہے وہ گھر ہمارا ہےکرسی خدا کے نور کی منبر ہمارا ہےایماں ہے جس کی فرد وہ دفتر ہمارا ہےمکتب ازل سے عرشِ منور ہمارا ہےاحمد مدینہ علم کے، در بوتراب ہےاس باب میں حدیثِ رسالت مآب ہےاپنی ولا سے فوق ملک پر ہے روح کوہم روحِ تازہ دیتے ہیں سام ابنِ نوح کوحکمِ خدا سے قبض بھی کرتے ہیں روح کوہم کھولتے ہیں جنگ میں بابِ فتوح کوفیصل ہوا ہے قول یہ خیبر کے قصے میںآیا ہے لافتیٰ مرے بابا کے حصے میںپہلے مصرعے میں روح= جبرئیللذت ملے گی حشر کے دن ان کلاموں کیجس دم نکل پڑے گی زباں تشنہ کاموں کیکوثر نبی کا ہو گا حکومت اماموں کیسقائی ہم کریں گے علی کے غلاموں کیآلِ رسول مالکِ روزِ حساب ہےکیا قہر ہے انہیں کے لیے قحطِ آب ہےیہ دن وہ ہیں تپش کے کہ سب رحم کھاتے ہیںاکثر سبیلیں رکھتے ہیں، پانی پلاتے ہیںپردیسیوں کو سائے میں لا کر بٹھاتے ہیںیاں اپنے مہمانوں سے پانی چھپاتے ہیںہے ہے قلق یہ ہوں چھ مہینے کی جان کوآنکھیں پھرا کے ہونٹوں پہ پھیرے زبان کواب بھی سمجھ خدا کے لیے، آ، جناں میں آدے پانی، لے بہشت، نہ جا نار میں، نہ جابیعت ہے ابنِ فاطمہ کی بیعتِ خداتیری بھلائی کے لیے کہتے ہیں، ہم کو کیاسب خاک ہے، نہ زر نہ پسر کام آئیں گےتربت میں بوتراب ہی آ کر بچائیں گےبولا وہ منہ پھرا کے ۔ سنو اے گروہِ شام!لو، ہم سے لینے آئے ہیں یہ بیعتِ اماممیں حُر نہیں کہ مان لوں۔ حاکم کا ہوں غلامدنیا مجھے پسند ہے، ایمان کو سلامبیعت یزید کی تو نہ شاہِ امم کریں؟قدرت خدا کی، بیعتِ شبیر ہم کریں؟یاں کان آشنا تھے کب اس بول چال سےدیکھا لرز کے تیغ کو قہر و جلال سےبھاگا چھپا کے روئے سیہ کو وہ ڈھال سےبادل اٹھے نشانوں کے دشتِ قتال سےتیغیں اُپی ہوئیں جو یکایک نکل پڑیںبازو کی مچھلیاں سرِ بازو اچھل پڑیںبڑھ کر نقیب بولے کہ ہاں، سرفروشو ہاںشیرو، دلیرو، غازیو! تازی کی لو عناںمرتے ہیں مرد نام پہ، نامرد بہرِ ناںسنبھلے ہوئے، کہ سامنے ہے ہاشمی جواںلینا نہ منہ پہ ڈھال کہ ہستی حباب ہےدینا نہ آبرو کہ یہ موتی کی آب ہےبولی یہاں رضائے خداوند ذوالجلالبسم اللہ اے جنابِ امیرِ عرب کے لالعدلِ خدا پکارا کہ خونِ عدو حلالپنجہ بڑھایا مہرِ علی نے سوئے ہلالقبضہ وفورِ شوق سے دو ہاتھ اچھل پڑاقالب سے ماہِ نو کے مہِ نو نکل پڑانکلی غلافِ نور سے تفسیرِ جوہرییا آ کے دست بوسِ سلیماں ہوئی پرییا حجلے سے عروس نے کی جلوہ گسترییا تھی یہ شاخِ میوۂ طوبیٰ ہری بھریاس ہاتھ سے مرادیں تھیں جو جو وہ مل گئیںباچھیں خوشی سے تیغ کے قبضے کی کھِل گئیںشاخِ نیام سے ہوا اس طرح پھل جداپیروں کے قد سے جیسے جوانی کا بل جداہستی جدا زمین پہ تڑپی، اجل جداخنجر جدا فلک پہ گرا اور زحل جداغل تھا کہ اب مصالحۂ جسم و جاں نہیںلو تیغِ برق دم کا قدم درمیاں نہیں!سایہ بھی صاف تیغ سے فوراً جدا ہوامطلب ملا کہ پانی سے روغن جدا ہواتنہا نہ رنگِ چہرۂ دشمن جدا ہواگردن سے سر، تو روح سے ہر تن جدا ہواپیہم صدا دلوں کے دھڑکنے کی آتی تھیآوازِ بوق اٹھتی تھی اور بیٹھ جاتی تھیسیدھی ہوئی جو تیغ تو لشکر الٹ گیامیداں سے پاؤں، جینے سے دل سب کا ہٹ گیاسب رو رہے تھے زور کو واں، سن بھی گھٹ گیامانندِ ناف خوف سے سینہ سمٹ گیابولی یہ تیغ دم سرِ اعدا پہ لوں گی میںبُرّش پکاری تو بھی ٹھہرنے نہ دوں گی میںپڑھتی ہوئی زبان سے وہ ‘لا فتا’ چلی‘روشن نگاہ’ کہنے کو آگے قضا چلیبائیں کو قہر داہنی جانب بلا چلیبالکل چراغِ عمر ہوئے گل ہوا چلیکہیے نہ تیغ دولھا کو برچھی لگائی تھیابنِ حسن کی آہ نے بجلی گرائی تھی!پھل وزن میں تھا پھول، تجلی میں نخلِ طورگرمی میں محض نار تو نرمی میں صاف نورآسیب سایہ، چال پری، قبضہ چشمِ حورخود لہر، آب زہر، تڑپ قہر، شور صوریوں دفعتاً زمیں سے گئی آسمان پرجس طرح غصہ آئے کسی ناتوان پرتیغیں بڑھیں تو اور گھٹی شانِ اشقیادستِ سوال جیسے سب اعضا میں بدنماالزام ان کی تیغ نے سب تیغوں کو دیاگرمی سے اس کی سرد تھے اعدا کے دست و پاجوہر کے خرمنوں پہ یہ مثلِ شرر گریہر تیغ پھلجڑی کی طرح چھوٹ کر گریپھر تو پکار تھی یہ اِدھر، وہ اُدھر گراوہ نیمچہ، وہ ہاتھ، وہ خود، اور وہ سر گرابن بن کے برق، سایۂ تیغِ ظفر گراواں مورچے سے باپ اٹھا، یاں پسر گراگر گر کے سر یہ رن میں برابر تپاں ہوئےجو رن میں سرزمین کے معنی عیاں ہوئےاس تیغ سے تھا سارے زمانے میں ماہِ عیدروشن تھا پنجتن کے گھرانے میں ماہِ عیدآنے میں روزِ وعدہ تو جانے میں ماہِ عیدصائم کو تھا غذا کے کھلانے میں ماہِ عیددل کے شکست ہونے سے روزے کا در کھلابرسوں کے بعد روزۂ فتح و ظفر کھلامشکل ہے ابتدا بہ سکوں، سب کو ہے خبرکلیہ یہ حسام نے باطل کیا مگرساکن بنائی زخم کے جِرموں سے سینِ سرسب وقف پیشِ تیغ تھے، کیا زیر کیا زبرآخر کی صف میں کچھ حَرَکَت آشکار تھیسو بسملوں کی طرح وہ بے اختیار تھیدینارِ تیغ رونقِ بازار ہو گیانادار اُس کے چلتے ہی زردار ہو گیااور دور مفلسی کا سب آزار ہو گیایہ آبِ تیغ شربتِ دیدار ہو گیاصد پارہ رن میں قالبِ ہر بیدریغ تھااس تیغ میں یہ خوردۂ دینار تیغ تھاآندھی تھی گرد، گھوڑے نے وہ خاک اڑائی تھیدریائے تیغ نے نئی گرمی دکھائی تھیآندھی نے آگ پانی کے اندر لگائی تھینعلوں کی بجلیوں سے ہر اک صف جلائی تھیچل پھر سے اس کی تیغ کی جنبش زیاد تھیکشتیِ تیغ کے لیے بادِ مراد تھیچہروں پہ مردنی کی طرح تیغ چھا گئیہر استخواں میں مثلِ تپِ دق سما گئیاعجازِ خاکساریِ حیدر دکھا گئیمانندِ خاک ناریوں کے تن کو کھا گئیسب کے گلوں سے ملتی تھی لیکن رکی ہوئیجوہر یہ تھے کہ بوجھ سے تھی خود جھکی ہوئیباطل کو حق سے، تیغ نے یوں کر دیا پرےخورشید جیسے رات کو دن سے جدا کرےخالی طرارے رخشِ جہندہ نے جو بھرےمیدان سے ہرن ہوئے روباہوں کے پرےشعلہ جو اس کے مشعلِ سُم سے عیاں ہواکیا کیا چراغ پا فرسِ آسماں ہواآتے تھے جوڑ توڑ غضب تیغِ تیز کوسر سے ملی جدا کیا پائے گریز کواپنے سے گرم دیکھ کے اس شعلہ ریز کوبرق و شرر نے نذر کیا جست و خیز کوبو گل نے رنگ لالے نے سرعت ہوا نے دییہ ہدیہ کیا ہے اپنی نیابت قضا نے دیقربان، فیضِ بازوئے شاہِ جلیل پرترجیح دستِ جود کو ہے سلسبیل پریوں فوج کا ہجوم تھا تیغِ اصیل پرگرمی میں جیسے پیاسوں کا بلوہ سبیل پرتازے خواص تیغِ رواں نے دکھا دیےپانی کے بدلے پیاس کے تیور بجھا دیےڈوبی سپر میں گر کے نئی چال ڈھال سےپاکھر کے بیچ میں نہ پڑی سیدھی چال سےاٹھ کر زرہ میں آئی شکوہ و جلال سےاک جال میں تڑپ کے گئی ایک جال سےگذری جو چار آئینے سے منہ کو موڑ کےغل تھا پری نکل گئی شیشے کو توڑ کےسُکّانِ شام و کوفہ میں اک باخدا نہ تھاان کا سوائے قہرِ خدا ناخدا نہ تھامطلب بجز خلاصیِ جاں تیغ کا نہ تھاڈوبا وہی حسین سے جو آشنا نہ تھارنگِ سیہ کے اڑنے میں یہ امتیاز تھادریائے تیغ میں وہ دھویں کا جہاز تھابازو و دست و گردن و سر بہتے پھرتے تھےگھوڑے اِدھر، سوار اُدھر بہتے پھرتے تھےطائر تھے آشیانوں میں پر بہتے پھرتے تھےسب سنگ دل تھے کوہ، مگر بہتے پھرتے تھےنے مرتے تھے نہ جیتے تھے لیکن سسکتے تھےبھیگے تھے مرغِ روح کے پر اڑ نہ سکتے تھےقربانِ برق و بارقۂ تیغِ شعلہ تابموتی کی آب و تاب، سمندر کا پیچ و تابخود نوح، خود سفینہ و خود ماہی و خود آبسرگوشیاں فرات میں کرنے لگے حبابظرفِ تنک میں تھی نہ جگہ اس کے آب کیبندھتی تھی اور کھلتی تھی مٹھی حباب کیہے قاعدہ کہ بھرتا ہے پانی جو ناگہاںدریا میں بیٹھ جاتی ہے ہر کشتیِ رواںپر اس جہازِ تیغ کو خطرہ نہ تھا وہاںعباس ناخدا تھے، علم شہ کا بادباں!دریائے خوں تھا تیغِ سبک رو کی ناؤ پرپر یوں رواں تھی جیسے کہ کشی بہاؤ پرپوچھا فلک نے، امن و اماں زیرِ ناؤ ہے؟آواز دی زمیں نے کہ ‘تیرا ڈباؤ ہے’اس نے کہا کہ تحتِ ثریٰ میں بچاؤ ہے؟بولی: نمودِ سینۂ ماہی و گاؤ ہےاس پوچھنے میں تیغ کا دریا جو بڑھ گیانو پُل فلک کے کیا ہیں کئی پُل پہ چڑھ گیاکاٹا پلک میں آنکھ کو، پتلی میں نور کوپاؤں میں کج روی کو سروں میں غرور کوسینے میں بغض و کینہ کو دل میں فتور کونیت میں معصیت کو طبیعت میں زور کوذات اک طرف مٹا دیا بالکل صفات کوکیسی زباں، زبان میں کاٹ آئی بات کوجب سرکشوں پہ سایۂ تیغِ اجل پڑابالوں کی طرح ہوش سروں سے نکل پڑاجھگڑا سر و قدم میں عجب بے محل پڑادونوں کی بے خودی پہ بدن خود اچھل پڑاسر بھاگنے کو پائے سپاہِ عمر بنےبچنے کی آرزو میں قدم اٹھ کے سر بنےمردہ تھا سر میں ہوش، سراسیمہ سرفروشسر قبر، خود گنبدِ قبرِ حواس و ہوشبے جاں سلاحِ جنگ، پریشاں سلاح پوشدم مارا تیغ نے نہ ہلایا سپر نے گوشچلّایا کی کمان نہ تیر اک رواں ہواڈھالوں کے پھول چلنے کا چالیسواں ہواروکی جو ڈھال اور بھی اندھیر چھا گیاروزِ سیاہ شامیوں کے منہ پہ آ گیاآخر بغیر بھاگے نہ ہرگز رہا گیااور نہرِ علقمہ میں یہ بحرِ سخا گیادریائے آبرو سے جو دریا کو بھر دیادُرِّ نجف نے بحر کو بحرین کر دیاچلّو بھرا فرات سے سرکا کے آستیںعبرت سے دیر تک اُسے دیکھا کیے وہیںپھر لائے امتحاں کے لیے ہونٹوں کے قریںسینے میں دل تڑپ کے پکارا، نہیں نہیںگو مہرِ فاطمہ ہے پہ مجھ پر حرام ہےوارث جو فاطمہ کا ہے وہ تشنہ کام ہےپانی جو بے حسین کے منہ سے لگائے گاہے ہے وفا کا نام ابھی ڈوب جائے گااس وقت آبرو جو گئی پھر نہ پائے گایہ روز اب زمانے میں کاہے کو آئے گاچلیے تو آبِ نہر سے کوثر بھی پاس ہےجب ہاتھ کٹ گئے تو نہ فاقہ نہ پیاس ہےغازی نے دل کے مشورے پر مرحبا کہادریا سے رو کے پیاسوں کا سب ماجرا کہاکاندھے پہ مشک بھر کے دھری، ‘یا خدا’ کہاچلتے ہوئے اجل نے پیامِ قضا کہا!ہے ہے نصیب پیاسوں کا رستے میں پھر گیاسقہ حرم کا فوج کے طوفاں میں گھر گیااکبر یہاں کھڑے تھے سنبھالے حسین کوسمجھا رہے تھے دیکھنے والے حسین کواِن کی فغاں تھی ‘بھائی بلا لے! حسین کو’عباس آ گلے سے لگا لے حسین کوتنہائی اپنے بھائی کی بھائی پسند کیکوثر پہ آپ پہنچے ترائی پسند کیبانو پکاری: ضامنِ عباس کو بلاؤلوگو کہو سکینہ سے لاؤ چچا کو لاؤانگلی پکڑ کر فضّہ کی سوئے فرات جاؤحضرت تڑپ رہے ہیں علم دار سے ملاؤبھیجا تھا کیوں جو اُن کو نہیں اب بلاتی ہوعاشق ہو کیسی باپ کو اپنے رلاتی ہوسہمی ہوئی سکینہ قریب آئی ننگے پاننھے سے ہاتھ جوڑ کے حضرت سے یہ کہامیں جاؤں بابا جان؟ نہ آئیں اگر چچاضامن دیا ہے لو مجھے جھوٹا کریں گے کیاایسے تو وہ نہیں ہیں کہ وعدہ بھلائیں گےفرما گئے ہیں نہر سے آگے نہ جائیں گےشہ رو کے بولے: ٹوٹ پڑا ہم پہ آسماںسچے ہیں بھائی، ٹھیک تمہارا بھی ہے بیاںاچھا نہ آگے جائے گا حیدر کا وہ نشاںکیا نہر پر اجل نہیں آ سکتی میری جاںدریا پہ کون روکنے والا قضا کا ہےدو لاکھ سے مقابلہ تیرے چچا کا ہےیہ سن کے ہو گئی وہ سراسیمہ اور کہاہے ہے یہ اب کھلا مجھے بہلا گئے چچالائے کہیں صحیح و سلامت انہیں خدایوں روٹھوں میں کہ ان کو بھی معلوم ہو بھلامجھ کو بھی ضد ہے پیاس سے جاں اپنی دوں گی میںپانی بھی ان کا لایا ہوا اب نہ لوں گی میںیہ ذکر تھا کہ نہر سے ماتم کا غل اٹھانوحہ یہ تھا کہ ‘وا ولَدِی وا مصیبتا’اکبر لپٹ کے رونے لگے شہ سے اور کہادادا کی روح روتی ہے، مارے گئے چچاان کی عزا کا آپ بھی سامان کیجیےشہ بولے چاک میرا گریبان کیجیےناگہ ندا یہ آئی: میں قربان یا حسینآقا حسین، قبلۂ ارض و سما حسیناے میرے وقتِ نزع کے حاجت روا حسیناے جاں بلب غلاموں کے مشکل کشا حسینہچکی لگی ہے دم کو قرار ایک دم نہیں!بالیں پہ میری آہ تمہارا قدم نہیں!شہ نے کمر پکڑ کے کہا: ہائے بھائی جاںجانا نہ بے ملے ہوئے ہم آئے بھائی جاںاللہ تم تلک ہمیں پہنچائے، بھائی جاںدھڑکا یہ ہے نہ غش کہیں آ جائے بھائی جاںگو نورِ چشم تھامے ہوئے ہاتھ میرا ہےاس پر بھی دونوں آنکھوں کے آگے اندھیرا ہےاکبر کو ساتھ لے کے چلے شاہِ کربلایاں قبۂ خیام گرے ہِل کے جا بجادوڑی سکینہ ڈیوڑھی سے، اور رو کے دی صداہے ہے ستم ہوا، ارے لوگو غضب ہوابابا سوئے فرات ابھی ننگے سر گئےلو صاحبو، ہمارے چچا جان مر گئےواں شہ کو نہر پر گہرِ مدعا ملاپر لال خون میں وہ دُرِ بے بہا ملامچھلی کی طرح شیر تڑپتا ہوا ملاآنکھیں عطش سے بند ملیں، منہ کھلا ملادیکھا کہ روحِ پاک سوئے حق رجوع ہےرکتی ہے سانس موت کی ہچکی شروع ہےیہ دیکھتے ہی آگے بڑھے اکبرِ جواںبڑھنا تھا بس کہ ہو گئے کپڑے لہولہاںدیکھا کہ دھار خون کی سینے سے ہے رواںحضرت نے پوچھا: کیا ہے؟ کہا: کیا کروں بیاںنوکِ سناں چچا کے جگر میں در آئی ہےکیا بے جگہ کسی نے یہ برچھی لگائی ہےلاشے پہ تھر تھرا کے گرے شاہِ نام دارجھک کر کہا یہ کان میں ہو ہو کے برقرارہم دم، رفیق، دوست، وفادار، جاں نثار!بازو، جگر، ضیائے بصر، رونقِ کنارہر زخم پر حسین فدا ہو، نثار ہوآنکھوں کو کھولو، بات کرو ہوشیار ہوسننا تھا یہ کہ ہونٹ علم دار نے ہلائےشہ نے جو کان لب پہ دھرے تو سنا، یہ ہائےچپکے سے کہہ رہے ہیں ‘میں صدقے حضور آئے’بچپن سے ناز آپ نے کیا کیا مرے اٹھائےاپنا غلام کہہ کے پکارو تو بولیں ہمآئی نہ ہو سکینہ تو آنکھوں کو کھولیں ہمیہ کہہ کے بے کسوں کے مددگار مر گئےحمزہ سدھارے جعفرِ طیار مر گئےجبریل بولے حیدرِ کرار مر گئےاب مصطفیٰ کے سارے علم دار مر گئےمولا جدا نہ بھائی کے لاشے سے ہوتے تھےشانوں کا خون چہرے پہ مل مل کے روتے تھےمَل کر لہو جبیں پہ امامِ امم چلےلاشے سے مڑ کے بولے کہ لو بھائی ہم چلےاکبر اٹھا کے کاندھے پہ مشک و علم چلےدو حشر سوئے خیمۂ اہلِ حرم چلےسقے کو ڈھونڈتے ہوئے گھر میں پھرے حسینپھر ہائے بھائی کہہ کے زمیں پر گرے حسینبانو نے رو کے پوچھا علم دار کیا ہوئےبولے تمہاری بیٹی پہ پیاسے فدا ہوئےشبیر کے حقوق سب ان سے ادا ہوئےہم مبتلائے صدمۂ شرم و حیا ہوئےاس بے کسی میں سوگ کا سامان کیا کریںعباس کے یتیموں پہ احسان کیا کریںاس نے کہا کہ سچ ہے نہ مقدور و نے وطنموجود ہے سکینہ و اکبر کا پیرہنعباس کے یتیموں کو بخشیں شہِ اممپہنیں پدر کا خلعتِ ماتم وہ گل بدنچادر کو پھاڑ کر کفنی اب بناتی ہوںرنڈ سالہ اُن کی بیوہ کی خاطر میں لاتی ہوںزیرِ علم بچھائی نبی زادیوں نے صفبیوہ بھی آئی کہتی ہوئی ‘یا شہِ نجف’سر ننگے بیٹی اِس طرف اور بیٹا اُس طرفملبوس لائی بچوں کا بانوئے باشرفیہ پیرہن تو سقے کی اولاد کے لیےاور سادہ کپڑے بیوۂ ناشاد کے لیےآئی نظر جو اکبرِ مظلوم کی قباتھرائی تڑپی بیوۂ عباسِ باوفااور دونوں ہاتھ جوڑ کے بانو سے یہ کہا:ٹھہرو خدا کے واسطے، ہے ہے یہ کیا کیااکبر کے کپڑے خلعتِ ماتم میں دیتی ہوزینب کھڑی ہیں ان سے نہیں پوچھ لیتی ہوکیوں لائیں فرشِ سوگ پہ بن بیاہے کا لباس؟زینب بھی بے حواس ہیں، لونڈی بھی بے حواسوسواس ہے خوزادے کی جانب سے بے قیاسمیٹھا برس تو خیر، غضب ہے یہ بھوک پیاسسب کنبہ اب تو جیتا ہے اکبر کی آس پرصدقہ اتاروں بچوں کو میں اس لباس پرخوزادے = شہزادےاکبر پہ جو کہ آنی ہو میرے پسر پہ آئےاللہ شاہزادے کا سہرا تمہیں دکھائےکُرتی سکینہ جان کی اور میری بیٹی، ہائےبس اب سدھاریے کہ مرا سایہ پڑ نہ جائےپُرسے سے سرفراز نہ نہ فرمائیے مجھےیہ سادے کپڑے آپ نہ پہنائیے مجھےرو کر کہا یہ بانو نے اس نیک ذات سےبس بس کلیجہ پھٹتا ہے ہر ایک بات سےرنڈ سالہ پہنو فاطمہ کبریٰ کے ہات سےیہ نامراد بیوہ ہے شادی کی رات سےبیٹی حسین کی ہے بہو یہ حسن کی ہےگھونگھٹ میں فکر دولھا کی خاطر کفن کی ہےرو رو کے بین فاطمہ کبریٰ نے یہ کیےہے ہے دولہن بنی تھی میں ان کاموں کے لیےبس اے دبیر خوب صلے نظم کے لیےتائیدِ غیب کے ہیں نمونے یہ مرثیےبحرِ رواں ہے یا کہ طبیعت ملی ہے یہسقائے اہلِ بیت ؑ کی دریا دلی ہے یہ