
فقر میں بادشاہی ۔ سچ زندگی ہے
سچ زندگی ہے ۔ فقر میں بادشاہی
تحریر : حجۃ الاسلام علامہ سید واصف حسین کاظمی
مادہ پرستی کے اس دور میں جہان بہت سارے انسانوں کو لات و منات کا درجہ حاصل ہوچکا ہے اور ایسی شخصیت پرستی کہ جس کا بیان کرتے ہوئے مرنا آسان اور جینا مشکل ہوجاتا ہے زمانے کے بندوں کی پست ترین کیفیت ان چار مختصر لائنوں میں ملاحظہ فرمائیں کہ
بت شکن خوش ہے کہ دو ہاتھ میں بت توڑ دیے
بت شکن کاش سمجھتا کہ وہ بت ساز بھی ہے
اب جو اس نے تراشے ہیں وہ پتھر کے نہیں
ان میں رفتار بھی ادراک بھی آواز بھی ہے
آج کل
بڑے سے بڑے علم کے برج سے یہی آواز آتی ہے کہ جب تک مآل نہ ہو وسائل نہ ہوں زندگی کے کسی شعبے میں کامیابی حتی کہ اسلام کے فطری اصولوں کی تبلیغ اور مقاصد کا حصول ناممکن ہوجاتا ہے اگر غور و فکر کریں تو ایسی صورتحال کے نتیجے میں بہت سارے افراد کا ایک ناجائز قانون پر اتفاق نظر آتا ہے کہ مادہ بشر سے افضل ہے یعنی جب تک مآل نہ ہو گا اس وقت تک انسان کی کامیابی کا تصور کرنا بھی محال ہوگا آج کل جہالت کا یہ نظریہ کافی مضبوط ہوچکا ہے ایسی صورت حال میں مجھے اپنے استاد بزرگوار قائد ملت جعفریہ پاکستان آغا سید حامد علی شاہ قبلہ موسوی النجفی حفظہ اللہ کا یہ فرمان ہمیشہ یاد آتا ہے کہ ( جب تم خدا اطاعت کر کے خدا کے بندے بن جاتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں مآل کا محتاج نہیں رہنے دیتا بلکہ مال کو تمہارا محتاج کردیتا ہے ) جی ہاں آغا جی سرکار نے ساری زندگی مجبور اور بےبس انسانیت کو بیدار کرنے کے لیے اور مادہ پرستی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے دماغوں کو آزادی کا پیغام دیتے ہوئے ہمیشہ کربلا والوں کی بے مثال حقیقت کی طرف دعوت دیتے ہوئے یہی فرمایا کرتے ہیں کہ ہماری درس گاہ کربلا ہے جہاں سے سید الشہداء اور ان کے جانثاروں کا یہی پیغام آتا ہے کہ جب انسان خدا پر توکل کرے تو مادی وسائل اس کے سامنے بہت حقیر ہو جاتے ہیں اور خدا کی ذات پر توکل نہ ہونے کی صورت میں انسان ہمیشہ مادہ پرستوں کی ناجائز خواہشات کے دائرے میں محدود ہو کر رہ جاتا ہے
یہ بات بھی یاد رہے کہ
مذاہب کی تاریخ میں فقط مذہب جعفریہ اثناء عشریہ کو یہ شرف حاصل رہا اور اس شرف کے حامل بہت سارے کردار ہمیشہ ہر زمانے مذہب جعفریہ سے منسوب رہے ان مخلصین علماء کے کمال کے نتیجے میں درباری مزاج ملاؤں میں اور علمائے حقہ میں ایک واضح فرق رہا اور علمائے حقہ نے اپنے کردار سے اس فرق کو ہر لحاظ سے ثابت کیا اور عقائد کی حدود کی پاسداری کا ہمیشہ خیال رکھا اور یہ بھی دیکھا گیا کہ بڑے بڑے بادشاہ بھی ان اولیاء اللہ کے دربان نظر آئے اور اس کے برعکس کے ضمیر فروش ملاں جو دنیا کے دیوانے بنے جو ہمیشہ علم اور عالم کے نام پر بدنما داغ کیطرح نظر آئے چلیں علمائے حقہ کی عزت و احترام امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرمان میں دیکھتے ہیں صادق آل محمد علیہ السلام نے فرمایا بحارالانوار جلد 1 صفحہ 183 پر یہ الفاظ اپنی نورانی کیفیت کے ساتھ نظر آئیں گے کہ
(الملوك حكام على الناس والعلماء حكام على الملوك)
ترجمه ( بادشاہ لوگوں پر حاکم ہوتے ہیں اور علماء بادشاہوں پر حاکم ہوتے ہیں ) سبحان اللہ یہ علماء کی شان بزبان امام جعفر صادق علیہ السلام ہے ان الفاظ کو پڑھنے والے آگر روحانی مزاج کے ساتھ پڑھیں گے تو ہر بار ایک عجیب سی لطافت کا احساس ہوگا جی ہاں دنیا کے فقیر اور دین میں جو امیر ہوتے ہیں وہ یقیناً فقر میں بھی بادشاہ ہوتے آج کے زمانے میں ایسے علماء بہت قلیل تعداد میں ہیں لیکن ایسے علماء قلیل ہو کر اپنے بابرکت وجود کے ساتھ اپنے نظریات پر قائم بھی ہیں اور مطمئن بھی ان بزرگوں میں ایک شخصیت قائد ملت جعفریہ پاکستان آغا سید حامد علی شاہ قبلہ موسوی النجفی حفظہ اللہ ہیں موسوی صاحب قبلہ نے عقائد حقہ کا پرچم ہمیشہ سر بلند رکھا اور مومنین کی تربیت کرتے ہوئے ہمیشہ یہی قرآنی دلیل پیش کی کہ( أن ليس للإنسان إلا ما سعى ) النجم ايه ٣٩ ( انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے) آغا جی سرکار نے ہمیشہ تاکید کی کہ محدود وسائل عقائد کی تبلیغ و ترویج میں رکاوٹ نہیں بن سکتے
لیکن افسوس صد افسوس
اس ایک صدی میں اور بالخصوص چار دہائیوں میں علماء کے لباس میں ملبوس علماء نے اپنی ساحرانہ حرکتوں سے مذہب حقہ کی نمائندگی کرنے کی کوشش کی ان لوگوں نے مادی وسائل کا سہارا لیا اور فقط شہرت کی کتاب میں اپنا وجود ثابت کیا ایسے دین فروشوں کی بد اعمالیوں کے نتیجے میں دین اسلام کے اخلاقی اصولوں کی نہ فقط توہین ہوئی بلکہ سچوں کے مذہب (مذہب جعفریہ) کو مجازی ادیان میں شامل کرنے کی کوشش بھی کی ایسی صورتحال میں بہت کم شخصیات نظر آئیں جنہوں نے عقائد کے اصولوں کی پاسداری کی اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاکیزہ مذہب کو اپنی اصلیت کے ساتھ محفوظ رکھا اگرچہ خدمت کے اس نتیجے میں آزاد زبانوں نے اور بےضمیر حریت پسندوں نے اطاعت خداوندی سے آزاد ہو کر زمانے کی بندگی کا مکمل حق ادا کیا اور علمائے حقہ کی مخالفت میں پست ترین حرکتوں کا سہارا لیا
لیکن
خدا کے مخلص بندوں نے معصومین علیہم السلام کی اطاعت کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ خدا بندے جب عبدیت کا ثبوت دیتے ہیں تو وہ منافقانہ لہجوں کے جواب میں ہمیشہ زمانے کی سلامتی کی دعا کرتے ہیں اور قرآن مجید کی اس آیت کے مفہوم کے عکاس بنتے ہیں سورہ الفرقان آیت 63
(وعباد الرحمن الذين يمشون على الارض هونا واذا خاطبهم الجاهلون قالوا سلاما)
ترجمہ
(اور اللہ کے بندے تو وہی ہیں جو زمین پر آہستہ سے چلتے ہیں اور جب جاھل ان سے خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں )
قائد ملت جعفریہ پاکستان آغا سید حامد علی شاہ موسوی النجفی حفظہ اللہ کا نہایت مختصر تعارف پیش کرنے کی کوشش کی آس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالی بحقِ اہلبیت علیہم السلام آغا جی سرکار کو ہمیشہ سلامت رکھے اور ملت جعفریہ کو دوستوں اور دشمنوں میں پہچان کرنے کی توفیق عطا فرمائے
والسلام علی من اتبع الھدیٰ