کوئی دوسراعقیدہ اپنے اوپرمسلط نہیں ہونے دیں گے،اللہ رسول ؐ اہلبیت ؑ صحابہؓ اور قرآن کو سیاسی مفادات کیلئے استعمال نہ کیا جائے، قائد ملت جعفریہ آقائے موسوی
آمد ہ عام انتخابات کیلئے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی الیکشن پالیسی کا اعلان ؛ 16نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈکا اجراء
فرقہ مسلک صوبائیت کی بنیاد پر انتخابی سیاست قوم و ملک کیلئے موت ہے،سیاسی جماعتیں خدمت اور منشور کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیں
ہر ادارہ آئین کواپنا تابع بنانا چاہتا ہے جو مسائل کی جڑ ہے
مذہبی جماعتوں کا بھی احتساب کیا جائے کالعدم جماعتوں کو چھوٹ شہداء کے لہو سے غداری ہے ایکشن پلان کی تمام شقوں پر عمل کیا جائے
ڈکٹیٹر کی جانب سے ختم کردہ ’حیدری نعرہ ‘بحال کیا جائے،شیعیان پاکستان کیلئے فقہ جعفریہ کا نفاذکیا جائے ،مقامات مقدسہ کے زائرین کو سہولیات دی جائیں
حضرت بری امام ؒ کے آثار اور قدیم لوح کو بحال کیا جائے، عزاداری میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں، نظریاتی کونسل ، علماء بورڈ میں مکتب تشیع کو نظریاتی نمائندگی دی جائے
مکتب تشیع چارٹر آف ڈیمانڈ پورا کرنے والی جماعتوں کی حمایت کرے ، ہیڈ کوارٹر مکتب تشیع میں علماء و عہدیداران کے ہمراہ پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب
اسلام آباد ( ولایت نیوز ) سر پرست اعلیٰ سپریم شیعہ علماء بورڈ سربراہ تحریک نفاذفقہ جعفریہ قائد ملت جعفریہ آغاسیدحامدعلی شاہ موسوی نے ہیڈ کوارٹرز مکتب تشیع علی مسجد میں پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آمد ہ عام انتخابات کیلئے الیکشن پالیسی کا اعلان کر دیا ،مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فرقہ مسلک صوبائیت کی بنیاد پر عملی انتخابی سیاست میں حصہ لینا قوم و ملک کیلئے موت گردانتے ہیں،ہر ادارہ آئین کوا پنا تابع بنانا چاہتا ہے جو مسائل کی جڑ ہے،پشاور سانحہ ایکشن پلان پر عمل نہ کرنے کے باعث ہوا،نگرا ن حکومت کو پچھتر ہزار افراد کے قاتلوں کو معاف کرنے کا اختیار کس نے دیا، اللہ رسول ؐ اہلبیت ؑ صحابہؓ اور قرآن کو سیاسی مفادات کیلئے استعمال نہ کیا جائے سیاسی جماعتیں قومی خدمت اور منشور کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیں ، مظلوموں کی حمایت کریں گے کبھی کسی ظالم کا ساتھ نہیں دیں گے،مسند عدالت پر بیٹھنے والے ججزانصاف کی فراہمی کیلئے رسول اللہ ؐ کے مقرر کردہ چیف جسٹس علی ابن ابی طالب ؑ کی پیروی کریں ۔
قائد ملت جعفریہ آغاسیدحامدعلی شاہ موسوی نے16نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کا اجراء کرتے ہوئے مکتب تشیع کے افراد کوہدایت کی کہ ان شرائط اور مطالبات کو پورا کرنے والی جماعتوں کی حمایت کی جائے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ سیاستدانوں حکمرانوں کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں کا بھی احتساب کیا جائے کالعدم جماعتوں کو چھوٹ شہداء کے لہو سے غداری کے مترادف ہے، ایکشن پلان کی تمام شقوں پربلا رو رعایت عمل کیا جائے ،نعرہ حیدری ہر مسلمان کیلئے جو ش و ولولے کا باعث ہے ، ڈکٹیٹر کی جانب سے ختم کردہ ’حیدری نعرہ ‘بحال کیا جائے،شیعیان پاکستان کیلئے فقہ جعفریہ کا نفاذکیا جائے ،مقامات مقدسہ کے زائرین کو سہولیات دی جائیں ، ٹرین سروس بحال کی جائے ، اسلامی نظریاتی کونسل ، علماء بورڈ رویت ہلال کمیٹی میں میں مکتب تشیع کو نظریاتی نمائندگی دی جائے،تعلیمی اداروں میں شیعہ طلاب کیلئے جداگانہ نصاب دینیات کا اجراء کیا جائے ،تمام اسلامی یونیورسٹیوں میں شیعہ فیکلٹی کا قیام کیاجائے،فیڈرل شریعت کورٹ میں شیعہ ججوں کا تقرر اوراعلی ٰ عدالتوں میں شیعوں کی موثر نمائندگی دی جائے ،ریاستی ذرائع ابلاغ میں برابر کی سطح پر فقہ جعفریہ کو نمائندگی دی جائے، جداگانہ شیعہ اوقاف بورڈ کا قیا م عمل میں لایا جائے حضرت بری امام ؒ کے مزار میں مٹائے اور چھپائے جانے والے آثار اور قدیم لوح کو بحال کیا جائے ، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کا یکساں نصاب بنایا جائے اور نصاب کمیٹی میں تمام مکاتب کے افراد شامل کئے جائیں، نئی آبادیوں شہروں سیکٹرز میں مکتب تشیع کو مساجد حسینیات اور امام بارگاہوں ومدارس کیلئے جگہیں فراہم کی جائیں،جنت البقیع جنت المعلی کی عظمت رفتہ بحال کی جائے، نواسہ رسولؐ کا غم تمام مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے عزاداری کے انعقاد میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے بے گناہ کارکنوں کو شیڈول فور سے نکالا جائے ۔
آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے واضح کیا کہ ہم اپنا عقیدہ کسی پر مسلط نہیں کرنا چاہتے نہ کوئی دوسراا عقیدہ اپنے اوپرمسلط ہونے دیں گے نظریاتی کونسل میں من پسند اور سودابازیوں کے تحت شامل کئے جانے والے افراد مکتب تشیع کے نمائندہ کہلانے کا حق نہیں رکھتے،دیگر فقہوں کی طرح فقہ جعفریہ پر ریسرچ کے یکساں اور بلا تعصب مواقع فراہم کرکے پاکستان کے شہریوں کو مکتب امام جعفر صادق ؑ کے ثمرات سے مستفید ہونے کے مواقع فراہم کئے جا ئیں۔
آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے کہا کہ اسلام آباد کے قیام کی صدیوں پہلے پیش گوئی کرنے والے سلطان الفقراء حضرت بری امام کاظمی الموسوی کے مزارکے امور ایسے لوگوں کے سپرد ہیں جن کا مزار سے دور کا بھی تعلق نہیں ۔مزار کی حالیہ تعمیر نومیں تعصب سے کام لیتے ہوئے مزار کی لوح تبدیل کردی گئی اور دیگر مقدسات جو بری امام ؒ کا تعلق مکتب اہلبیت سے ثابت کرتے تھے کو چھپا دیا گیا۔خدارا ایسا نہ کیا جائے اہلبیت سے محبت پر تو کسی شیعہ سنی کا اجارہ نہیں سبھی ان کی محبت کا دم بھرتے ہیں لہذاحضرت بری امام ؒ کے مزار میں مٹائے اور چھپائے جانے والے آثار اور قدیم لوح کو بحال کیا جائے ۔مئی 2005میں دربار حضرت بری امام ؒ پر سالانہ پرسہ داری کے موقع پر مجھے (آقائے موسوی کو) خودکش حملے کے ذریعے ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی گئی جس میں دودرجن عزادار درجہ شہادت پر فائز ہوئے بری امام ؒ کے احاطے میں ان شہدا کو خراج پیش کرنے کیلئے گنج شہیداں کی تختی نصب کی جائے،ڈیرہ اسمعیل خان میں کوٹلی امام حسینؑ سمیت ملک بھر میں شیعہ اوقاف کے مسائل کو حل کیا جائے ۔65کی جنگ کے ہر ترانے میں جذبہ حیدری چھلکتا نظر آتا ہے جس سے دشمن کے دل دہل جاتے تھے لیکن ملک اور قوم کی رگوں میں عصبیتوں کا زہر گھولنے والے ڈکٹیٹر ضیا الحق نے فوج سے نعرہ حیدری ختم کروادیا ۔جہاں آج ہر کوئی ڈکٹیٹروں کی مذمت کرتا ہے وہاں پوری قوم کوڈکٹیٹر ضیا الحق کے تمام تعصبانہ اقدامات کے خاتمے کیلئے بھی ہم آواز ہونا ہوگا۔
آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے کہا کہ آج ہر جانب احتساب کا نعرہ بلند ہو رہا ہے سیاستدانوں کے احتساب کی تو سب بات کرتے ہیں لیکن مذہب کے نام پر بیرونی ممالک کے مفادات کیلئے کام کرکے اربوں کھربوں بنانے والوں کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتاکل جن کے پاس لباس اور سواری نہ تھی آج ان کی جائیدادوں کا حد وحساب ہی نہیں۔ہم اپنا دیرینہ مطالبہ دہراتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کی بیرونی امداد پر پابندی لگائی جائے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ سب سے پہلے اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کرتی ہے ۔
آغا سیدحامد علی شاہ موسوی نے دعا کی کہ خداوند عالم آمدہ الیکشن اور اس کے نتائج کو پاکستان کی تعمیر و ترقی استحکام خوشحالی کیلئے ایک سنگ میل بنا دے اور قوم کو اپنے مستقبل کا درست فیصلہ کرنے کی توفیق مراحمت فرمائے انہوں نے کار پیمبری انجام دینے والے صحافیوں کی سلامتی و خوشحالی اور وطن عزیز کے استحکام عالم اسلام کی یکجہتی کیلئے بھی دعا کی ۔
پریس کانفرنس میں ٹی این ایف جے کے مرکزی عہدیداران ، پاکستان بھر کے سینئر علماء ، مدارس کے نمائندگان اور ٹی این ایف جے کے صوبائی عہدیداران اور ذیلی تنظیموں کے سربراہان بھی موجود تھے ۔