آئینِ پاکستان اور یکساں نظام تعلیم کے نام پر نافذ کردہ نصاب
تحریر: حسن کاظمی
وطنِ عزیز پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کے تحت عمل میں آیا جس کی بنیاد کوئی فرقہ وارانہ اکائی نہیں بلکہ مذہب ِاسلام ہے۔یہی وجہ ہے کہ آئین ِ پاکستان کے مطابق پاکستان کا سرکاری مذہب کسی فرقہ کے بجائے اسلام کو قرار دیا گیا جس کا مقصد ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جس میں اسلام کے تمام مسلمہ مسالک و مکاتب فکر کے پیروکار زندگی کے ہر شعبے میں یکساں حقوق کے حامل ہوں اور عدل و انصاف پر مبنی نظامِ ریاست میں کسی ایک فرقے کو دوسرے پر کسی قسم کی برتری یا فوقیت حاصل نہ ہو۔اسی طرح مختلف نظریات و عقائد کے ساتھ شرکتِ وجود coexistance کیلئے درکارباہمی احترام و برداشت، ہم آہنگی اور و رواداری کو فروغ دیا جائے جبکہ اسلامی اصولوں کے مطابق غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ بھی یقینی بنایا جا سکے۔تاہم یہ امر باعث تشویش ہے کہ حال ہی میں حکومت پاکستان کی جانب سے” ایک قوم ایک نصاب” کے نعرے کے تحت "یکساں نظا م تعلیم "کے نام پر جاری کردہ درسی نصاب میں قیام پاکستان کے مقاصد اور آئین پاکستان میں تمام مکاتب فکر کیلئے تسلیم کیئے گئے یکساں حقوق کی واضح طور پر خلاف ورزی کی گئی ہے۔ نصاب میں تمام تعلیمی مواد کو ایک مخصوص مکتب فکر کے نظریہ اورعقائد کے تحت مرتب کیا گیا ہے جس سے اسلام کی آفاقیت کے ابلاغ کے بجائے سرکاری سرپرستی میں ایک مخصوص فکر کی تعلیم و ترویج جبکہ دیگر مکاتبِ فکر کے نظریات و عقائد کی تردید کی گئی ہے جس سے معاشرے میں فسطائیت اور ایک کے علاوہ دیگر تمام مکاتب فکر کے پیروکاروں کیلئے عدم برداشت کے اسی تکفیری کلچر کو فروغ ملے گا جسکی ترویج ضیائی مارشل لاء کے تاریک دور میں تیزی کے ساتھ کی گئی اور جس نے اپنے علاوہ دیگر تمام کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے کر ملک میں فساد کے ایسے لامتناہی سلسلے کو جنم دیا جسے ردالفساد جیسے کتنے ہی آپریشنز اور لاتعداد قیمتی جانوں کی قربانیوں کے باوجود مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکا جبکہ یہ متشدد سوچ آج بھی وقتا فوقتا مختلف واقعات و سانحات کی صورت اپنے وجود کا احساس دلاتی رہتی ہے۔
قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے یکساں نظام تعلیم کے طور پر جاری کردہ اس نصاب کے بارے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے جہاں اس نصاب کو قرآن و سنت کی تعلیمات اور تاریخی حقائق کے برعکس قرار دیا ہے وہیں اسے آئین ِ پاکستان سے متصاد م بھی قرار دیا ہے۔اس ضمن میں ہماری اس تحریر کا مقصد اجمالی طور پر اس امر کا جائزہ لینا ہے کہ قومی کے بجائے اس یک مکتبی نصاب کے اجراء سے آئین ِپاکستان کی کون کون سی شقوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل نمبر2 کے تحت پاکستان کا سرکاری مذہب کوئی فرقہ نہیں بلکہ اسلام ہے۔ تاہم یکساں نظام تعلیم کے تحت جاری کردہ اس نصاب میں اسلام کے تمام معتبر مکاتبِ فکر کے عقائد و نظریات کے بجائے ایک مخصوص فکر کی تعلیم و ترویج کر کے وطن عزیز کو اسلامی کے بجائے ایک فرقہ وارانہ ریاست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو آئین پاکستان کے آرٹیکل 2سے انحراف ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 کی شق الف پاکستانی عوام کے” حقِ معلومات” سے متعلق ہے جس کے مطابق ہر شہری کیلئے عوامی اہمیت کی تمام تر معلومات تک رسائی اس کا بنیادی حق ہے جسے یقینی بنایا جائے گا۔ مذہب کے نام پر حاصل کیئے گئے ملک کے شہریوں کی زندگی میں مذہبی نظریات و عقائد سے متعلق علم اور معلومات انتہائی اہمیت کی حامل ہیں تاہم نصاب میں فقط ایک فرقے کے عقائد و نظریات کے تحت تعلیم مسلط کر کے دیگر تمام مکاتب فکر اور اقلیتی مذاہب کے پیروکاروں کے لیئے معلومات تک یکساں رسائی کے حق کی نفی کی گئی ہے۔
اسی طرح آئین کے آرٹیکل 20 کی شق الف کے تحت ہر شہری کیلئے اپنے مذہب پر اعتقاد، اس پر عملدرآمد اور اسکی تعلیم و ترویج کا حق تسلیم کیا گیا ہے تاہم سرکاری طور پر نافذ کردہ تعلیمی نصاب میں ایک مخصوص مذہبی عقیدے کے ابلاغ کے ذریعے اس آرٹیکل میں دیئے گئے حقوق کا یکساں اطلاق ممکن نہیں رہتا۔
سرکاری تعلیمی ادارے براہِ راست عوام کے ٹیکس کی بدولت کام کرتے ہیں جبکہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 21 یہ ضمانت فراہم کرتا ہے کہ کسی شخص کو ایسے کسی ٹیکس کی ادائیگی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جس کا استعمال اسکے اپنے مذہب کے بجائے کسی دوسرے عقیدے کے ابلاغ و فروغ کیلئے کیا جائے۔ اس اعتبار سے سرکاری سطح پر ایک مخصوص فرقے کے نظریات کے فروغ سے آرٹیکل 21 میں درج حقوق کی بھی خلاف ورزی ہورہی ہے کیونکہ تمام مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے عوام سے حاصل ہونیوالے ٹیکس کے ذریعے چلائے جانیوالے تعلیمی ادارے میں ایک مخصوص فرقے کے نظریات و عقائد کی تعلیم دی جار ہی ہے۔
اسی طرح آئین پاکستان کے آرٹیکل 22 کی شق الف یہ ضمانت فراہم کرتی ہے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم طالب علم پر اسکے اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور کی تعلیمات مسلط نہیں کی جائینگی۔ تاہم فرقہ وارانہ چھاپ کے حامل زیر بحث نصاب کے باعث آئین پاکستان میں پاکستانیوں کیلئے تفویض کردہ اس حق کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
مذید برآں آئین پاکستان کا آرٹیکل 33 یہ یقین دلاتا ہے کہ ریاست کی جانب سے عوام میں تنگ نظری، نسلی، قبائلی اور فرقہ وارانہ عصبیتوں کی حوصلہ شکنی کی جائیگی۔ ایک مخصوص فرقے کے نظریات و عقائد کی ترجمانی کرتا ہوا نصابِ تعلیم آئین کی شق 33 سے مکمل انحراف ہے۔
آئین پاکستان کا آرٹیکل 227 یہ واضح کرتا ہے کہ ہر شخص کیلئے قرآن و سنت کی وہی تشریح معتبر تصور ہو گی جواسکے متعلقہ مکتب فکر کے مطابق ہوگی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس اصول کے برخلاف نصاب تعلیم میں ایک مخصوص فرقے کے نظریات و عقائد کی ترویج کی گئی ہے۔ اسلامیات کی درسی کتب میں شامل نصاب میں قرآن کریم کی تشریح اور احادیث مبارکہ کے حصول کیلئے بھی ایک ہی فرقہ کی کتب کے حوالہ جات شامل کیئے گئے ہیں جس سے یہ ترشح ملتا ہے کہ اسلام کی بس ایک ہی تشریح معتبر ہے اور اس مخصوص فرقے کے علاوہ دیگر تمام مکاتب فکر کے علمی خزانے کو نظر انداز کر کے انہیں اسلام سے لاتعلق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مذہبی عقائد و نظریات کی تعلیم کے علاوہ نصاب میں شامل کیئے گئے اہم تاریخی واقعات، مشاہیر اسلام، اولیائے کرام اور یہاں تک کہ مذہبی تہواروں تک کے چناؤ میں بھی بخل سے کام لیتے ہوئے ایک مخصوص نظریے کی سوچ اور پسند نا پسند کی پیروی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں بسنے والے دیگر مذاہب کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے جو آئین کے آرٹیکل 36 میں درج حقوق کی نفی ہے۔
پاکستانی قوم کے لیئے جاری کردہ اس نصاب پر ہمارے قومی نظریات و فکریات کی نمائندگی کے بجائے فرقہ وارانہ چھاپ واضح ہے جس کے باعث اس نصاب کی تعلیم دینے والے ادارے بھی ایک مخصوص مکتب ِفکر کے مدارس بن کر رہ جائیں گے۔ جیسا کہ قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے اس نصاب کے بارے اپنے ردعمل میں واضح طور پر متنبہ کر دیا ہے کہ اس نصاب ِتعلیم کی تیاری میں کارفرما تنگ نظری، فسطائیت اور فرقہ واریت ملک میں ایسے سنگین مسائل کو جنم دینے کا باعث بنے گی جن کا بوجھ اٹھانا قوم کیلئے ممکن نہیں ہوگا، لہٰذا یہی وقت ہے کہ مقتدر حلقے اور صاحبان اختیار و اقتدار نظام تعلیم کے خلاف ہونیوالی اس گھناؤنی سازش کا فوری نوٹس لیں اور قومی نصاب کی تیاری کیلئے فکری امتیازات و عصبیت پر مبنی سوچ کے حامل عناصر کی منظوری کے بجائے حقیقی معنوں میں قومی اتفاق رائے کا حصول یقینی بنائیں تاکہ ملک میں پڑھایا جانیوالا نصاب کسی ایک فرقے کے بجائے اسلام اور پاکستان کا آئینہ دار ہو۔