12جولائی 1992ءسانحہ عاشورہ پشاور : ماتمی زنجیر زنوں کی استقامت اور صدر ٹی این ایف جےسردار ممتاز قزلباش کی سرفروشی کی یادگار

ولایت نیوز شیئر کریں

تحریر : علا حیدر

پشاور کے ماتمی عزاداروں زنجیر زنوں کی قربانی تاریخ عزادری میں یادگار رہے گی 

1992ء کا سانحہ عاشورہ پشاور راہ عزاداری کی قربانیوں کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔12جولائی کو امام بارگاہ حیدر شاہ سے نکلنے والا پشاور کا تاریخی جلوس عاشورہ اپنے روایتی روٹ پر گامزن تھا  کہ اچانک کوہاٹی چوک میں  نہتے پرامن ماتمیوں پر شرپسندوں نے فائرنگ اور پتھراو ء شروع کردیا جس میں درجنوں عزادار شہید ہوگئے اور بیسیوں ذخمی ہوئے ۔

ماتم اور زنجیر زنی میں مصروف شب عاشور کے تھکے ہوئے عزاداروں نے اپنی استقامت کے ساتھ دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنا دیا جیسے جیسے گولیوں اور پتھروں کی بوچھاڑ تیز ہوتی رہی عزاداروں کی یاحسینؑ کی صدا مزید  بلند ہوتی رہی(یہ حقائق  فیس بک  اور سوشل میڈیا پر ماتمیوں زنجیر زنوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے بیرونی ایجنٹوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہیں  صرف سانحہ عاشورہ نہیں قربانی کے ہر محاذ پر ماتمی عزاداروں نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا) ۔

جلوس عزا پر حملے کے بعد دہشت گردی کا سلسلہ ختم نہ ہوا شام غریباں کی رات تک درجنوں دیگر امام بارگاہوں پر حملوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا۔ شرپسندوں کو مکمل بیرونی تائید حاصل تھی لیکن عزاداروں کے سر پر حضرت بتول ؑ کی دعا سایہ فگن تھی دلوں میں آل محمد (ص) پر یقین  کا سچا جذبہ موجزن تھا ۔۔مختارفورس کے رضا کاروں نے اپنے سنی برادران کے ہمراہ مقدسات کا تحفظ کیا۔

پشاور میں آج تک عزاداری کا جاری رہنے والا سلسلہ ان شہیدوں کی قربانی اور ماتمیوں کی استقامت کے طفیل ہے جن پر پوری قوم کو فخر ہے ۔ بالخصوص سانحہ عاشورہ کے بعد بدترین بحران میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے صوبائی صدر سردار ممتاز حسین قزلباش نے جن قائدانہ و سرفراشانہ صلاحیت کا مظاہرہ کیا وہ مکتب تشیع کی تاریخ کا روشن باب ہے ۔

جلوس عاشورہ پر حملہ کے بعد عزاداری کے جلوس کو مسدود اور محدود کرنے کے اعلانات شروع کردیئے گئے لیکن سردار ممتاز قزلباش نے آقائے موسوی کی رہنمائی کے عین مطابق قوم کی نمائندگی کا حق ادا کیا ۔ عدالتوں ،انتظامیہ کے دفاتر، سیاسی محاذوں غرضیکہ ہر میدان میں سردار ممتاز قزلباش نے دلیری کے ساتھ قوم کا دفاع کیا۔ وہ اکثر تن تنہا عدالتوں میں جاتے انہیں دھمکیاں ملتیں لیکن انہوں نے کبھی پرواہ نہ کی ۔

16 اگست 2009 کو سردار ممتاز قزلباش کو بھی کالعدم جماعتوں کے دہشت گردوں نے سچائی کا پرستار وعلمبردار ہونے کی پاداش میں شہید کردیا ۔لیکن قوم کا وہ عظیم مجاہد اپنا مشن مکمل کرچکا تھا ۔

شہید سردار ممتاز قزلباش صوبائی صدر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ خیبر پختونخواہ

شہید سردار ممتاز قزلباش

سانحہ پشاور اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات قوم کیلئے ایک دائمی درس  کی حیثیت رکھتے ہیں کہ کسی بھی بحران اور مشکل میں محض بھڑکیں مارنے،جذباتیت اور کھوکھلے نعروں سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ قومی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے ۔ سازشوں اور حملوں کے مراکز اور ان کے اصل  اہداف  کا ادراک کرکے صبر وتحمل فہم و فراست ،تدبر ،حکمت اور سب سے بڑھ کر قربانی کے ساتھ ان  کا مقابلہ کیا جاتا ہے اور انہیں ناکام کیا جاتا ہے۔ اپنی ذات مٹا کر قومی اہداف کو بچایا جاتا ہے ۔

مل رہے ہیں کربلا والوں سے یہ دونوں سبق    کیا بچانا چاہئے اور کیا لٹا نا چاہئے

پشاور کے جلوس عزا پر حملہ کرنے والے اکثر دہشت گر د گمنامیوں اور ذلتوں کی پاتال میں اتر چکے ہیں ضرب عضب سے کچلے گئے یا ردالفساد سے  اپنا منہ چھپاتے پھررہے ہیں پشاور کی عزاداری ،پاکستان کی سنی شیعہ وحدت اور مجالس جلوس ذوالجناح کا سلسلہ آج بھی قائم اور دائم ہے ۔ سردار  ممتاز قزلباش سمیت سانحہ کے تمام شہدا ء جام حسینیت ؑ پی کر امر ہو چکے ہیں ۔ پشاور کے ماتمی عزاداروں زنجیر زنوں کی قربانی تاریخ عزادری میں یادگار رہے گی  ۔پوری قوم اپنے محسنوں کو سلام عقیدت پیش کرتی ہے ۔سردار ممتازقزلباش ،شہدائے عزاداری سانحہ عاشورہ  اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والے تمام شہدائے پشاور کا مقدس لہو دنیا کو پیغام دے رہا  ہے کہ

بتارہا ہے یہ ہردور کے یزیدوں کو

رکھو نگاہ میں ‘پشاور’ کے ان شہیدوں کو

جگر میں گرمئ  دشت بلا بھی رکھتی ہے

یہ قوم حوصلہ کرب و بلا بھی رکھتی ہے

 

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.