علما مشائخ کانفرنس میں کالعدم جماعتوں کی شمولیت باعثِ تشویش : وزیر اعظم و فیلڈ مارشل نوٹس لیں، کالعدم جماعتوں کو بےنقاب کرتے رہیں گے، ٹی این ایف جے کا عزم

ولایت نیوز شیئر کریں

پاک فوج کے شہداء کا مقدس لہو رائیگاں نہیں ہونے دینگے، کالعدم جماعتوں کو بےنقاب کرتے رہیں گے۔ علامہ بشارت حسین امامی سیکرٹری جنرل تحریک نفاذ فقہ جعفریہ
مرکزی و صوبائی حکومتیں نیشنل ایکشن پلان کی تمام شقوں پر بلا رو رعایت عمل کریں۔ علامہ بشارت امامی
علما و مشائخ کانفرنس میں کالعدم جماعتوں کی شمولیت باعثِ تشویش ہے، وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نوٹس لیں۔ سیکرٹری جنرل ٹی این ایف جے
کالعدم دہشتگرد گروپوں کو مذہب و مکتب کا نمائندہ بنا کر پیش کرنا دین و مذہب سے عداوت ہے۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ

اسلام آباد (ولایت نیوز ) سیکرٹری جنرل تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان علامہ بشارت حسین امامی نے کہا ہے کہ پاک فوج کے شہداء کا مقدس لہو رائیگاں نہیں ہونے دینگے، کالعدم جماعتوں کو بےنقاب کرتے رہیں گے۔ مرکزی و صوبائی حکومتیں نیشنل ایکشن پلان کی تمام شقوں پر بلا رو رعایت عمل کریں۔ علماء و مشائخ کانفرنس میں کالعدم جماعتوں کی شمولیت باعثِ تشویش ہے، وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل حافظ عاصم منیر نوٹس لیں۔ کالعدم دہشتگرد گروپوں کو مذہب و مکتب کا نمائندہ بنا کر پیش کرنا مذہب سے عداوت ہے۔ انسداد دہشتگردی کیلئے اخلاص کا اظہار تمام کالعدم گروپوں پر عملی پابندی سے ہوگا۔ انسداد دہشتگردی کے بیانیہ پیغام ِپاکستان پر قبولیت کے دستخط کرنے کے باوجود مسلمہ مکاتب کی تکفیر کرنیوالوں کے خلاف سخت کاروئی کی جائے۔ ملک میں کوئی مسلکی تنازعہ نہیں ہے بیرونی امداد کے پالے کالعدم گروپوں کی لڑائی کو فرقہ واریت نہ سمجھا جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو عشرہ اجر رسالت ؐ کی مناسبت سے مجلسِ حضرت امام علی نقی ؑ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

علامہ بشارت امامی نے باور کروایا کہ خانوادہ ِ محمد و آل محمدؐ کی عظیم ہستی حضرت امام علی نقی ؑ کا اسوہ انسانیت کے لیے مکمل درسِ عمل ہےجو اجر رسالت کی ادائیگی اور دنیاکو درپیش دہشتگردی جیسے موذی مرض کا شافی علاج ہے۔ علامہ بشارت امامی نے کہا کہ وطن عزیز پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پون لاکھ سے زائد قربانیاں پیش کیں۔ وطن عزیز پاکستان کی بقاء و سلامتی کی اس جنگ میں عسکری محاذ پر پاکستان کی بہادر افواج و سیکیورٹی اداروں کی گراں قدر خدمات اور لاتعداد قربانیاں شامل ہیں جنہوں نے قوم کی بھرپور تائید سے جارحیت کے مرتکب اندرونی و بیرونی دشمنوں کو ناکوں چنے چبوائے، البتہ مادرِ وطن سے شدت پسندی، عدم برداشت اور دہشتگردی کا خاتمہ کر کے اسے مستقل امن کا گہوارہ بنانے کے لیے قوانین اور منصوبوں کی تشکیل ہی نہیں بلکہ ان پر صحیح معنوں میں عملدرآمد بھی ضروری ہے۔ اے پی ایس پشاور کے اندوہناک سانحہ کے بعد انسداد دہشتگردی کے خاتمے کیلئے تشکیل دیا جانیوالا نیشنل ایکشن پلان ایک جامع ترین منصوبہ اور پوری قوم کی آواز تھا جس کے بیشتر نکات کو بدقسمتی سے ذاتی و جماعتی و عارضی مفادات اور مصلحتوں کی نظر کر دیا گیا جبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی حال ہی میں اپنی ایک خصوصی پریس بریفنگ میں اس حقیقت کی نشاندہی کی کہ نیشنل ایکشن پلان کے متعدد نکات پر عمل نہیں ہوا۔ ملک میں بیرونی امداد کے بل بوتے پر ملک دشمن ایجنڈوں کے تحت دہشتگردی میں ملوث گروپوں کو کالعدم بھی قرار دیا گیا لیکن اس کے باوجود انہیں عارضی مفادات کیلئے مراعات دینے کا سلسلہ بھی جاری رہا اور عملی میدان میں انسداد دہشتگردی ایکٹ اور نیشنل ایکشن پلان کے مخالف پالیسیاں اختیار کی گئیں۔ فرقہ وارانہ و لسانی عصبیت کی بنیاد پر عملی انتخابی سیاست نے معاشرے میں انتشار و افتراق پیدا کیا۔ نیشنل ایکشن پلان نے کالعدم ہونے کے بعد نئے نام اختیار کرنے والی جماعتوں پر بھی پابندی کا تقاضا کیا لیکن ملک میں انہی دہشتگرد گروپوں کو عوام کے نمائندے تصور کر کے پالیسی سازی کا حصہ بنایا گیا۔ یہاں تک کہ بعض کالعدم گروپ بیک وقت وزارت داخلہ کی کالعدم دہشتگرد جماعتوں کی فہرست میں بھی شامل ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی انتخابات میں حصہ لینے کی اہل جماعتوں کی فہرست میں بھی موجود ہیں۔ عوام انگشت بدنداں ہیں کہ حکومت کی جانب سے جن جماعتوں پر قربانی کی کھالیں جمع کرنے پر پابندی ہے انہیں انتخابات میں حصہ لے کر ایوانِ نمائندگان میں پہنچنے اور وہاں بیٹھ کر کروڑوں عوام کی تقدیر پر اثر انداز ہونے کی اجازت ہے۔ 9/11 کے بعد عالمی استعماری قوتوں کی جانب سے اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کو شدت پسندی اور دہشتگردی سے نتھی کرنے کے قبیح بیانیہ کو فروغ دینے کا سلسلہ تیز کیا گیا، جبکہ ہمارے ہاں کالعدم گروپوں کو انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت آہنی شکنجے میں جکڑنے کے بجائے مذہب و مکاتب کے نمائندے بنا کر سرکاری و انتظامی کمیٹیوں اور کونسلوں وغیرہ میں شامل کر دیا گیا جس کے باعث ایک جانب تو اسی قبیح استعماری بیانیہ کی تائید ہوئی جبکہ دوسری جانب کالعدم گروپوں کو معاشرے پر اثر انداز ہونے کا موقع ملا۔ انسداد دہشتگردی کیلئے سرکاری طور پر "پیغامِ پاکستان” بیانیہ تیار کیا گیا جس میں دیگر کے ساتھ ساتھ کالعدم گروپوں کے رہنماؤں سے شدت پسندی، عدم برداشت اور دہشتگردی کے خلاف تائیدی دستخط لیئے گئے لیکن اس کے باوجود ان کے جلسوں، ریلیوں، اجلاسوں اور خطابات و خطبات میں شدت پسندی، عدم برداشت اور تکفیری نظریات کی ترویج واضح دکھائی دیتی ہے جو دہشتگردی کیلئے سہولت کاری اور اس آگ کیلئے ایندھن کی فراہمی کا کام کرتی ہے جسے روکنے کیلئے اربابِ اختیار کو فقط قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان و انسداد دہشتگردی ایکٹ کے مطابق ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.