یہ انقلاب کھوکھلا ہے

ولایت نیوز شیئر کریں

تحریر : اے ڈبلیو یوسفی

انتخابات کے حتمی نتائج آنے سے پہلے اور آزاد امیدواروں کا پھر سے غلامی کی زنجیریں پہننے تک میں نے خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا۔ لیکن کچھ احباب کے بار بار ٹیگ کرنے پر چند سطور پیش خدمت ہیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ میں نے آج تک ایک مخصوص جماعت پر تنقید زیادہ تر فقط اور فقط اپنے مذہبی حقوق کے تناظر میں ہی کی ہیں۔ محبان اہلبیت ع کی اولین زمہ داری اپنے عقائد و نظریات کا تحفظ ہے کیونکہ کسی بھی انسان کے لیے اسکا مذہب تمام چیزوں سے بڑھ کر ہوتا ہے اور مکتب تشیع کا تو کیا ہی کہنا۔ اس لحاظ سے بطور ایک محب اہلبیت (ع) میرا فریضہ ہے کہ اپنے مذہبی حقوق سے باخبر بھی رہوں اور کب کب ان پر ڈاکہ ڈالا گیا کس نے ڈالا کس نے ان حقوق کا دفاع کیا اس سب سے اپنی قوم کو باخبر کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ احباب پتہ نہیں مجھے کیا کچھ کہتے رہے جبکہ میں اپنی پوزیشن کئی بار واضح کر چکا ہوں۔

میرا کوئی ذاتی جھگڑا کسی بھی جماعت سے نہیں ہے انصافی حکومت کے دور میں یکساں نصاب تعلیم کے نام پر مسنون درود شریف تبدیل کر دیا گیا (صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بجائے صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم ) حضرت ابوطالب علیہ السلام کی شان کے مخالف مواد شامل نصاب کیا گیا۔ شیعہ فیملی لاز میں ترمیم کی گئی عزاداری کی مد میں سب سے زیادہ ایف آئ آرز اسی جماعت کے دور میں ہوئی غرض بہت کچھ۔ لیکن آپ ویسے بھی یہ سننا پسند نہیں کرتے۔ ویسے پچھلی جماعتوں کے دور میں بھی مکتب تشیع کو نقصان پہنچائے گئے ہیں لیکن ہمارے مشاہدہ کے مطابق باقی جماعتوں کی نسبت اس مخصوص جماعت کے دور میں زیادہ نقصان پہنچا۔ اب پارٹی لیڈر اگر اس میں براہ راست شریک نہیں بھی تھا تب بھی انکی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی ناک کے نیچے ہونے والی پامالی حقوق کا ازخود نوٹس لیتے۔ اور اسکا ازالہ کرتے لیکن بار بار احتجاج کے باوجود بھی انکی جانب سے کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔

فیسبک میں مکتب تشیع کے احباب کو قریب سے مشاہدہ کرنے پر کم از کم میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بدقسمتی سے ہماری ملت کے اندر بھی مذہبی روح کے مقابلے میں اندھی سیاست کی روح اتنی زیادہ بیدار ہو چکی ہے جس نے ان سے مذہبی اقدار عقائد و نظریات کی حرمت کا خیال و تحفظ کا احساس لاشعوری طور پر چھین لیا ہے یعنی سیاست کو مذہب پر فوقیت دی جانے لگی ہے۔ اسکی مثالیں بہت ہیں مثلا ہمارے جو حقوق سلب ہوئے انکا بیشتر افراد کو علم تو ہی نہیں اگر ہم آگاہ کرنا بھی چاہیں تو لوگ ہمیں سننا بھی پسند نہیں کرتے۔ ہمارے ہی مکتب کے بہت سے احباب نے دھڑلے سے 2024 کے انتخابات کو مظلوم کی حمایت اور ظالم کے خلاف تحریک بنسبت کربلا اور یزید تشبیہ دینے اور اسکا پرچار کرنے میں بالکل بھی شرم محسوس نہیں کی جبکہ کجا کربلا اور کجا پاکستانی سیاست کچھ تو خوف کریں ۔۔۔ کربلا والا یہی مذہبی بیانیہ مخصوص جماعت نے خوب بیچا یوٹیوبرز نے خوب بیچا۔ اور خریدنے والے نوجوانوں کہ جنکی ذہنی پرورش اسی سچ و جھوٹ کے مکسچر کے ذریعے کی گئی۔ پراپیگنڈا کے ذریعے کسی کے ذہن کو تبدیل کرنا ویسے بھی تمام سیاسی جماعتوں کی پرانی روایت ہے اور اقتدار میں ہوتے ہوئے مبینہ طور پر 1100 انٹرنیز کے ذریعے بھی نوجوان طبقے کی ذہن سازی کی گئی۔ جس پر مبینہ طور پر 870 ملین خرچ ہوئے۔جی جناب۔ جی 870 ملین۔ (ڈان نیوز)

گو کہ حالیہ انتخابات میں سرفہرست یہی جماعت ہے اور عوام مبارکباد کے بھی قابل ہے کہ عوامی طاقت انہوں نے آخرکار دکھا ہی دی لیکن میں کہتا ہوں کہ زیادہ سیٹیں جیتنا بالکل بھی حق پر ہونے کی نشانی نہیں کیوں
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے (علامہ اقبال)
لہذا اس کھوکھلی جیت کے پیچھے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے گئے کئی اہم بیانیئے ہیں جن کے زریعے جوانوں اور نوجوانوں کی زہن سازی کی گئی یہ سب اسی کا نتیجہ ہے یعنی یہ ایک فطری انقلاب نہیں ہے۔ آجکل سوشل میڈیا جسکا ہے اسی کی رائے عامہ ہے۔ (آپ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں)
اور ان لاتعداد بیانیوں میں سے دو اہم بیانئے تھے جن پر خود انہوں نے کبھی بھی عمل نہیں کیا اور نہ ہی کبھی کریں گے۔ پہلا بیانیہ ریاستی اداروں کے خلاف انتقام کی آگ بھڑکانا(ریاستی ادارے دودھ کے دھلے بھی نہیں) جبکہ خود اعتراف بھی کرتے ہیں کہ انہی اداروں کی مدد سے یہ لوگ اقتدار میں آئے تھے۔ اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے؟ دوسرا بیانیہ مذہبی ٹچ والا تھا جسکے آلہ کار باقی تو بنے ہی بنے ہمارے مکتب کے بہت سے افراد بھی بنے۔ پاکستان کی بے ہنگم و کرپٹ سیاست کو کربلا اور یزید لع کا معرکہ قرار دیکر لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھارا گیا۔ پہلا بیانیہ بھی اندر سے کھوکھلا ہے اسے فقط اپنے مقصد کے لیے پھیلایا گیا دوسرا وہ ،مذہی بیانیہ تو ویسے بھی اتنا کھوکھلا ہے کہ ایک طرف کربلا کے نعرے جبکہ دوسری جانب یکساں نصاب تعلیم میں اہلبیت (ع) کی گستاخی پر مبنی مواد کو شامل کرنا۔ ایک طرف مظلوم کی حمایت کے نعرے جبکہ دوسری جانب ہزارہ شہدا کو بلیک میلر کے طعنے ۔ اور کیا کیا گل کھلائے اسکی لسٹ بہت لمبی ہے۔ کربلا کو نصاب میں شامل کرنے کی آج تک کس سیاست دان نے کوشش کی ؟ میں تمام سیاستدانوں کی بات کر رہا ہوں مصیبتوں میں کربلا والا بن جانا سب سے بڑا دھوکہ ہے جو سیاست دان ہمیں دیتے آئے ہیں۔ خیر آپ ویسے بھی یہ سننا پسند نہیں کرتے۔
آپ یقین جانیں کہ اس حق و باطل کے مکسچر بیانیے کا ٹرینڈ اتنا دلکش ہے کہ یوٹیوبرز اسکے ختم نہ ہونے کی دعا کر رہے ہیں انکی روزی روٹی کا اتنا آسان ذریعہ بن چکا ہے اگر اپکو لائکس کمنٹس چاہئیں تو فلاں کے حق میں پوسٹ کر دو۔ اور اگر۔۔۔۔۔۔ چاہئیں تو ہماری طرح حقیقت پسند بن کر معاشرے کے طعنے سنو۔

آزاد امیدوار جیت گئے بہت اچھا ہوا پنجاب میں ایک شدت پسند کال عدم ٹولے کا خاتمے کا سہرا بھی انہی آزاد امیدواروں کے سر ہے۔ کہ کم از کم پانچ سال تک تو یہ امید ہے کہ ہماری اسمبلیاں ان شدت پسند عناصر سے پاک رہیں گی۔ اور کبھی نصاب کے نام پر تو کبھی ترمیمی بلوں کے نام پر فرقہ وارانہ فسادات سے محفوظ رہیں گے اللہ کرے ایسا ہی ہو۔

اب جہاں تک بات انقلاب کی ہے تو انقلاب نہیں آنا اگر آپ مکمل کلین سویپ بھی کر جاتے تب بھئ انقلاب نہیں آنا تھا کیوں۔ کیونکہ انقلاب کے لیے لیڈر اور عوام کو ایک پیج پر ہونا چاہئے اور لیڈر کے پاس منشور بھی عملی پونا چاہئے جو لیڈر ہے اس کا منشور عملی طور پر خامیاں رکھتا ہے۔ سابقہ سیاست دانوں کی طرح اس نے بھی کچھ اقدامات کے علاوہ بس فقط بیانیہ ہی بیچا ہے۔ اور کچھ نہیں اگر وہ اور اسکی جماعت اپنی پرانی غلطیوں سے سیکھتی ہے تو پاکستانی سیاست کے لیے یہ بہت ہی خوش آئند بات ہو گی۔
اور عملی انقلاب کے لیے رہبر کبیر خمینی رح جیسی ہستی چاہیے یا محمود احمدی نژاد جیسا ایرانی حکمران چاہئے جو سو سالوں میں بھی پاکستان کو تو نہیں مل سکتا۔

انقلاب کے لیے عوام کی بھی ضرورت ہوتی ہے یہ حقیقی آزادی کے نعرے اور غلامی کی زنجیریں توڑ دو کے نعرے سب کھوکھلے ہیں اس عوام کو فقط خان چاہئے اپنی ذات میں یہ عوام کبھی بھی تبدیلی نہیں لائیں گے عمران خان کا بڑا مسئلہ اسکی کربٹ ٹیم اسکے خائن وزیر و مشیر ہی تھے۔ جس دن پانی پینے کا گلاس جو واٹر کولر کے ساتھ زنجیر کے ذریعے لگا ہوتا ہے وہ آزاد ہو گا تب یہ قوم آزاد ہو گی جس دن دودھ میں پانی ملا کر بیچنے والا سدھرے گا جس دن قصائی کتے کا گوشت بیچنا بند کرے گا اور جس دن سرکاری افسران یا اہلکاران رشوت غرض کرپشن کی طویل لسٹ بند ہو گی تب یہ ملک آزاد ہو گا۔
اور مزے کی بات یہ ہے کہ بعض بیدار اذہان کرپشن کی تمام تر ذمہ داری کمپنی پر ڈال دیتے ہیں آپ سے گزارش ہے کہ مندرجہ بالا کرپشن کی مثالوں سے کمپنی کا کیا واسطہ ہے؟ برصغیر کی عوام کے خون میں جو کرپشن دوڑ رہی ہے آپ اسے کیسے ختم کریں گے۔ بڑے لیول پر بیشک #تمام ملکی اداروں میں کرپشن ہوتی ہے لیکن اسکی تمام تر ذمہ داری کمپنی پر ڈالنا حقیقت سے منہ چھپانے کے مترادف ہے۔

ملک کو بدلنے کے لیے عوام کو بھی بدلنا ہو گا حکمرانوں کو بھی اپنا آپ بدلنا ہو گا۔ جسکے آثار دور دور تک تو ویسے نظر نہیں آ رہے۔لہذا یہ کھوکھلے انقلاب کے نعرے بند کرو۔ اور حقیقی انقلاب کے لیے راہیں ہموار کرنا شروع کرو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.