قائد اعظمؒ پر بہتان طرازی اور آغا حامد موسویؒ کی وصیت
تحریر: علا حیدر
قائد اعظم محمد علی جناح تاریخ انسانی کی وہ انقلا ب آفرین شخصیت ہیں جنہوں نے مذہب کے نام پر نقشہ ارضی پر پہلی لکیر کھینچوانے کا اعزاز حاصل کیا ، سلطنت عثمانیہ کو کرچی کرچی کرنے والی سپر پاور برطانیہ کو چاروں شانے چت کیا، اور حقیقی معنوں میں تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا۔وہ ہستی جس کے اپنے بیگانے سبھی مخالف تھے لیکن فقط خدا رسولؐ و آلِؑ رسول ؐ کی پشت پناہی اور کچلے ہوئے مسلمانوں کے اعتماد نے انہیں تاج بر طانیہ اور مسلمانوں سے افرادی قوت معیشت سیاست میں کئی گنا مضبوط ہندوؤں کو شکست فاش دینے میں کامیابی عطا فرمائی۔
مسلمانوں کی حالت سے مایوس ہو کر انگلستان چلے جانے والے قائد اعظم محمد علی جناح جب حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے اصرار پر واپس آئے تو وہ مصطفویؐ سایے اور حیدری تائید سے ایک نئی طاقت بن چکے تھے جس کا کرشمہ دنیا نے یوں دیکھا کہ وہ مسلم لیگ جو ۱۹۳۷ کے انتخابات میں چند نشستیں حاصل کر پائی تھی ۱۹۴۶ کے انتخابات میں مسلمانوں کی ۸۷ فیصد نشستیں جیت کر ناقابل تسخیر ہو چکی تھی اس دوران قائد اعظم محمد علی جناح کے خلاف ہر طرح کا غلیظ پروپیگنڈا کیا گیا لیکن قائد کی با کردار اور سحر انگیز شخصیت نے انگریز اور ہندو اتحاد کے ہر حربے کو پاش پاش کرڈالا۔قائد اعظم کے خلاف پرو پیگنڈہ صرف تحریک آزادی کے دوران نہیں کیا گیا بلکہ اس پروپیگڈے کا سلسلہ قائد سے شکست خوردہ قوتوں کی جانب سے قائد اعظم کی رحلت کے بعد بھی جاری رہا بلکہ آج تک جاری ہے ۔
قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شا ہ موسوی رحمہ اللہ علیہ کی زندگی کے آخری ایام میں خانوادہ موسوی کے بچوں کا معمول تھا کہ اپنے کورس یا دینی کتب کے اہم واقعات آغا جی کو بھی سنایا کرتے تھے جس پر آغا جی ان بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ۔
خانوادہ موسوی کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق جولائی 2022 میں جب آقای موسوی کی نواسی جو انگریز مصنّفین لیری کولنز اور ڈومینک لاپیئر کی تقسیم ہند پر لکھی گئی شہرہ آفاق کتاب فریڈم ایٹ مڈنائٹ کا مطالعہ محض اس لئے کررہی تھیں کہ اس میں قائد اعظم کی طاقت کا اعتراف کیا گیا تھا کہ: ’اگر اپریل 1947 میں ماؤنٹ بیٹن، جواہر لال نہرو یا مہاتما گاندھی میں سے کسی کو بھی قائد اعظم کو لاحق ٹی بی کی مہلک بیماری کے غیر معمولی راز کا علم ہو جاتا جو بمبئی کے ایک مشہور طبیب ڈاکٹر جے اے ایل پٹیل کے دفاتر کی تجوری میں ایکسرے کی صورت انتہائی حفاظت سے رکھا ہوا تھا، تو شاید ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا اور آج ایشیا کی تاریخ کا دھارا کسی اور رخ پر بہہ رہا ہوتا۔ ‘‘
فریڈم ایٹ مڈنائٹ کے مطالعے کے دوران ان پر منکشف ہو ا کہ کتاب میں قائد اعظم کی طاقت کے اعتراف کے ساتھ ساتھ جا بجا ان کی ذات پر بے حد کیچڑ بھی اچھالا گیا ہے اور وہ تمام اقتباسات آقای موسوی کی نواسی نے انہیں سنائے جس پر پاکستان اور قائد اعظم سے بے پناہ محبت رکھنے والے نظریہ پاکستان کے محافظ آغا سید حامد علی شاہ موسوی شدید مضطرب اور بے چین ہو گئے اور فرمایا بیٹا اس کتاب میں لکھے گئے گمراہ کن پروپیگنڈے کی سطر سطر پر نشانیاں لگا لیں اور میری یہ بات یاد رکھئیے گا جب آپ تعلیم سے فارغ ہوں تو آپ نے اس کتاب میں لکھے گئے ایک ایک گمراہ کن لفظ کا جواب لکھنا ہے یہ آپ پر فرض بھی ہے اور قرض بھی ۔قائد ملت جعفریہ آقای موسوی تو آج ہم میں نہیں لیکن ان کی یہ فکر اور نصیحت و وصیت ہر آنے والی نسل کیلئے درس ہے



آج بھی قائد اعظم محمد علی جناح کی سچائی کے سامنے بے بس ہو جانے والی قوتوں کی اسلام اور پاکستان دشمن باقیات جدید میڈیا کے زور پر نوجوان نسل کو پاکستان سے مایوس کردینا چاہتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل پاکستان کے قیام اور قائد اعظم محمد علی جناح کی جدوجہد کو باطل ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی نظر آتی ہیں لیکن انہیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ اس وطن کے پیچھے سرور کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہنمائی ہے حیدری جرات کے امیں قائد اعظم نے طاقتوروں فتنہ گروں اور پاکستان کے قیام میں حائل قوتوں پر آٹھ دہائیاں پہلے بھی ثابت کیا تھا کہ
رکھتا ہے دل میں تاب و تواں نو کروڑ کی ۔۔۔ کہنے کو ناتواں ہے محمد علی جناح
کتنے عظیم تھے وہ قائد اعظم جن کے بارے میں نامور سفارتکار سابق بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت کا کہنا تھا کہ اگر مسلم لیگ کے پاس سو گاندھی ہوتے اور کانگریس کے پاس ایک جناح تو پاکستان کبھی نہ بنتا۔آج وہ پاکستان ایک حقیقت ہے ایک ایٹمی طاقت ہے عالم اسلام کی ڈھارس ہے مظلوم کشمیریوں فلسطینیوں کے لبوں کی پکار ہے اسی وجہ سے ہر اسلام دشمن قوت کو قائد اعظم سے بیر ہے ۔
آج جب ایک بار پھر پاکستان اور اس کے بانیان جھوٹے پروپیگنڈوں کی یلغار کا شکار ہیں بھی اقبال و جناح کی محنتوں ریاضتوں سے فیضیاب ہونے والے ہر پاکستانی کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ نہ صرف قائد اعظم کے عظیم کر دار کے ہر گوشے کو دنیا کے سامنے لاکر ان کے افکار کی روشنی میں پاکستان کو مظبوط تر بنائیں گے بلکہ ہر اس طاقت کو ناکام بنائیں گے جو وطن عزیز کی بنیادیں کھوکھلی ، اس کے نظریے کو باطل ، اس کے امن پر حملہ ،اس کی ترقی میں رکاوٹ اور اس کی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کا مکروہ عمل کرے گی۔ یہ عالم ربانی آقای موسوی کی وصیت ہی نہیں بلکہ وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر قوم کی بیٹیاں اور بیٹے اپنے پرکھوں کی امانت تاریخ انسانی کے بے مثؒل معجزے وطن عزیز پاکستان کی حفاظت کرسکتے ہیں اور اس کے بانیان کو خراج پیش کرسکتے ہیں کیونکہ وہی قومیں عظمتوں کے اوج کو چھوتی ہیں جو اپنے محسنوں کی قدر کرتی ہیں ۔
