نام نہاد یکساں نصاب تعلیم کی منظوری میں آستین کے سانپوں کا بھیانک کردار
تحریر: کاظم مہدی
یکساں نصاب کے رائج ہونے کے بعد کئی ماہ کی پراسرار خاموشی کے بعد بعض قومی حلقوں کی جانب سے اچانک یکساں نصاب کے خاف شور بلند ہونا شروع ہوا ہے جس کے حوالے سے چند حقائق قوم کے علم میں لانا ضروری ہیں ۔
قوم کے علم میں ہونا چاہیئے کہ یہ متنازعہ نصاب منظوری کے درج زیل مراحل عبور کرکے رائج ہوا ہے۔
پہلے ٹیکسٹ بک بورڈ کی اندرونی جائزہ کمیٹی Internal Review Committee سے منظور ہوا، اسکے بعد ایک بیرونی جائزہ کمیٹی External Review Committee نے اسے تفصیلی مطالعے اور غور کے بعد منظور کیا، اس منظوری کے بعد اس نصاب کو منظوری کیلئے متحدہ علماء بورڈ کو بھیجا گیا جہاں سے جائزے اور منظوری کے بعد یہ ٹیکسٹ بک بورڈ کی ایپیکس کمیٹی Apex Committee کے پاس بھیجا گیا جس نے کتابوں کی اشاعت کی حتمی منظوری دی اور نصاب کتابوں کی اشاعت کیلئے پبلشرز کو بھجوایا گیا۔ پبلشرز کی۔جانب سے کتابیں چھاپے جانے کے بعد مارکیٹ میں آئیں اور سکولوں میں رائج کی گئیں۔
اس سارے عمل میں جائزہ کمیٹیوں میں بھی مولانا فضل الرحمان کی اتحادی شیعہ علماء کونسل اور جامعہ المنتظر کے مولوی موجود تھے اور علماء بورڈ میں بھی یہی مولوی اہل تشیع کے نمائندے بن کر موجود تھے۔
آپ ان مولویوں سے ضرور سوال کریں کہ جنہوں نے پہلے اس نصاب کی جائزہ review کمیٹیوں میں بیٹھ کر اسی نصاب کی منظوری دی، اسکے بعد متحدہ علماء بورڈ میں بھی انہوں نے اس نصاب کو منظور کیا، اور جب نصاب منظوری کے تمام مراحل طے کر کے شائع ہو کے کتابوں کی صورت اسکولوں میں رائج ہوگیا تو سوائے تحریک نفاذذ فقہ جعفریہ کی قیادت کے کسی کو بھی اس گھنآنی سازش پر لب کھولنے کی جرات نہ ہوئی ۔

جون 2021 میں قوم کو پہلی مرتبہ اس متعصبانہ نصاب کو دیکھنے و پڑھنے کا موقع ملا اور قوم کے چند خیرخواہ ذمہ داران نے اس فرقہ وارانہ نصاب کو مسترد کر دیا اور ملک بھر میں اس نصاب کے خلاف احتجاجی قراردادیں پیش ہونے لگیں لیکن افسوس کہ ہر حکومت کے آلہ کار کا کردار ادا کرنے والے کسی نام نہاد عالم نے اس نصاب کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالا
اور جب پورے 7 ماہ گزرنے کے بعد ان بکاؤ مولویوں کو اپنی چوری کے پکڑے جانے کی فکر لاحق ہوئی اور اب اپنا منہ دھونے کیلئے اسی نصاب کے خلاف پریس کانفرنسیں اور خطابات کر رہے ہیں۔
ان سے پوچھیں کہ جب ان مولویوں کے بقول جائزہ کمیٹیوں میں ان کا موقف نہیں سنا گیا تو ان کا کوئی احتجاج جو ریکارڈ پر ہو؟ اسکے بعد متحدہ علماء بورڈ میں بھی یہی مولوی شیعوں کی نمائندگی کر رہے تھے، وہاں سے بھی نصاب منظور ہوا جبکہ شیعوں کے ان نام نہاد مولویوں کی جانب سے مسترد کرنے کا کوئی اعلان، کوئی اختلاف, کوئی احتجاج نہ ہوا بلکہ الٹا ان کی جانب سے منظوری کے دستخط کیئے گئے۔ اور اب نصاب منظرعام پر انے کے بعد اور عوامی سطح پر شور مچ جانے کے بعد یہ مولانا صاحبان اپنا اختلاف پیش کر کے منہ دھونے کیلئے کوشاں ہیں، اور قوم کے سگے بن رہے ہیں۔
جبکہ یہی لوگ تو نصاب کی منظوری دینے والوں میں شامل تھے، ان کا احتجاج، ان کا اختلاف تو منظوری کےمراحل کے دوران بنتا تھا جو نہیں کیا۔ نصاب ایک جائزہ کمیٹی سے منظور ہوتا ہے، یہ خاموش رہتے ہیں، اسکے بعد دوسری جائزہ کمیٹی سے منظوری ہوتی ہے یہ خاموش ہیں، اسکے بعد متحدہ علماء بورڈ سے منظور ہوتا ہے یہ خاموش رہتے ہیں، وہاں سے ایپیکس Apex کمیٹی کے پاس جاتا ہے انہیں سانپ سونگھا رہتا ہے، اسکے بعد پبلشرز کے پاس جاتا ہے اور کتابیں چھپتی رہتی ہیں انکی کوئی آواز نہیں نکلتی، جب کتابیں سامنے آجاتی ہیں، شیعہ قوم انہیں مسترد کر دیتی ہے ملک بھر میں شور مچ جاتا ہے تو اسکے بعد بھی کئی ماہ کی خاموشی ان کا اختلافی موقف منظرعام پر آنا شروع ہوتا ہے۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے چور پکڑے جانے کے بعد خود ہی شور مچانا شروع کر دے جسے کہتے ہیں کہ "چور مچائے شور”