فلسطین اور جنت البقیع، دو دنوں میں دو مختلف رویئے ؛ عالم اسلام کے زوال کا سبب
(یہ رپورٹ پہلی بار 23 مئی 2021 صبح 1 بج کر 27 منٹ پر شائع ہوئی ۔ دوبارہ شیئر کی جارہی ہے )
لاہور (بشکریہ والعصر نیوز نیٹ ورک) پاکستان کے تمام شہروں میں 20 مئی 8 شوال یوم انہدام جنت البقیع اور اور 21 مئی یوم فلسطین کی مناسبت سے احتجاجی پروگرام منعقد ہوئے۔
جمعہ 21 مئی کو پاکستان بھر میں وزیر اعظم اور تمام مذہبی سیاسی جما عتوں کی اپیل پر فلسطینیوں سے یکجہتی کیلئے ریلیاں نکالی گئیں ۔شہر شہر انتظامیہ کی سرکردگی میں جلوس نکالے گئے اجتماعات ہوئے جن میں ہزاروں افراد نے کووڈ پابندیوں کے بیچ سماجی فاصلے کی پابندی کے بغیر شرکت کی ۔ وزیر اعظم پاکستان نے فلسطین ریلیوں میں عوام کے باہر نکلنے پر بھرپو ر مسرت کا اظہار کیا جو کسی بھی درد دل رکھنے والے مسلمان کے جذبات کا مظہر تھا۔

21 مئی جمعہ کو تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے بھی فلسطینی عوام سے یکجہتی کیلئے یوم مردہ باد اسرائیل مانے کا اعلان کرتے ہوئے ملک گیر مظاہروں کی کال تھی جس پر لبیک کہتے ہوئے پورے ملک میں ٹی این ایف جے اور ذیلی تنظیموں نے احتجاجی جلوس نکال کر فلسطینی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کیا ۔
یوم فلسطین سے صرف ایک روز قبل قا ئد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی کی کال پر 20 مئی یوم انہدام جنت البقیع کے موقع پر بھی ملک بھر میں ماتمی احتجاجی جلوس نکالے گئے یہ جلوس بھی خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے مزار اور مسلمانوں کے مقدس مقامات پر صیہونیت برطانویت و استعماریت کی مشترکہ جارحیت کے خلاف تھے لیکن افسوس کہ انتظامیہ کی جانب سے ان دو دنوں میں دو مختلف رویہ دیکھنے میں آیا۔
منافقت اور تضاد:
یوم فلسطین کے جلوسوں کو تمام میڈیا ہاؤسز نے بھرپور انداز میں کور کیا خصوصی پروگرام نشر کئے جبکہ بڑۓ الیکٹرانک میڈیا ہاؤسز یوم انہدام جنت البقیع کے جلوسوں کی چھوٹی سی خبر دینے سے بھی گریزاں نظر آئے حتی کہ نامعلوم دباؤ کی بنا 8 شوال 20 مئی کی دوپہر کو فیس بک پر والعصر کا پیج ب 48 گھنٹوں کیلئے بلاک کردیا گیا ۔ اور تمام لائیو نشریات روک دی گئی تھیں اور فیس بک پیج پر راولپنڈی بقیع ملین مارچ کو براہ راست نہ دکھایا جا سکا۔

21 مئی کے پروگراموں میں انتظامیہ اور حکومتی مشینری نے تمام تر وسائل استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو جلوسوں میں شامل ہونے پر مائل کیا تو دوسری جانب 20 مئی جنت القبیع کی تاراجی اور مسجد اقصی کا دنیا کو تعارف کرانے والوں کے مزارات کی بے حرمتی کیخلاف ماتمی احتجاج کواکثر مقامات پر انتظامیہ نے پوری قوت سے روکنے کی کوشش کی ۔ لاہور میں بانیان کے گھروں پر ریڈ کی دھمکی دی گئی ، راولپنڈی جہلم چکوال جھنگ گجرات کوئٹہ میں جنت البقیع کے جلوسوں کے آرگنائزرز کو ڈرا دھمکا کر ان سے حلفی بیان لینے کی کوشش کی گئی ، حتی کہ شیڈول فور میں ڈالنے کی دھمکیاں دی گئیں ۔ ساہیوال میں مکمل ایس او پیز اور سماجی فاصلہ برقرار رکھ کر نکالے جانے والے ماتمی احتجاجی جلوس پر ایف آر دے دی گئی ۔

یہی دو رویئے ہیں جن کے سبب عالم اسلام افرادی قوت قدرتی وسائل وسیع رقبے اور ہر طرح کی نعمتوں سے مالامال ہونے کے باوجودایک چیونٹی کی حیثیت رکھنے والے ملک اسرائیل کے سامنے بے بس ہے ۔
فلسطینی بیٹیوں پر ظلم کیخلاف احتجاج کا ساتھ ، نبی کریم ؐ کی بیٹی کی قبر پر ظلم کیخلاف احتجاج پرپابندیاں قدغنیں اور رکاوٹیں!!!
آج فلسطینی بیٹیوں کیلئے بجا طور پر شیعہ سنی پورا عالم اسلام ہی نہیں مغربی ممالک کے عوام بھی آواز احتجاج بلند کررہے ہیں لیکن نبی کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ زہراؑ سلام اللہ علیھا کے مزار پر بلڈوزر چلانے کے خلاف احتجا ج کو آج بھی پابندیوں قدغنون اور رکاوٹوں کا سامنا ہے ۔جس مسجد اقصی سے ایک بار نبی کریم گزرے اس کیلئے احتجاج کرنے والوں کیلئے تمام تر سہولیات فراہم کی گئیں لیکن جس فخر مریم حضرت زہرا کے درواززے پر کھڑا ہو کر روز نبیوں کا سردار سلام بھیجا کرتا تھا اس کی توہین کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ریاستی جبر کا نشانہ بنایا جارہا ہے یہی وہ منافقت اور تضاد ہے جس کے سبب نہ دنیا میں امن قائم ہو پارہا ہے نہ مسلمان ذلت و رسوائی کی دلدل سے نکل پا رہے ہیں.

اہلسنت مسلک سے تعلق رکھنے والے پہاڑوں جیسا حوصلہ رکھنے والے چٹان کے مدیر بابائے صحافت شورش کاشمیری نے کئی دہائیاں قبل جنت البقیع کی مسمار قبروں پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کو ان کے زوال کا سبب بتا دیا تھا اور قبر زہرا ؑکی مسماری پر یہ نوحہ لکھا تھا کہ
اس سانحہ سے گنبد خضری ہے پر ملال ۔۔۔۔ لخت دل رسول کی تربت ہے خستہ حال
جس کی نگاہ میں بنت نبی کی حیا نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس قوم کا نوشتہ تقدیر ہے زوال
کاش مسلمان حکمران اور لیڈران شورش کاشمیری کے تجزیہ کے مطابق نبی کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ زہرا کو راضی کرنے کی جدوجہد کرتے تو کوئی طاقت کشمیر فلسطین برما کی بے بس بیٹیوں کے لبوں پر فریاد و فغان کے بجائے امن و سکون ہوتا جس بیٹی کی ناراضگی رسول خداؐ کو گوارا نہ تھی اس بیٹی کی ناراضگی حبیب خدا کا للہ کیسے برداشت کردکتا ہے ۔ بقول محسن نقوی شہید
اے روح پیمبرؐ تیری امتت ہے پریشاں۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید تیری بیٹی تیری امت سے خفا ہے