شہزادہ صلح و امن حضرت امام حسن علیہ السلام ۔۔۔۔ جس نے خدا کے دین کی صورت اجال دی

ولایت نیوز شیئر کریں

کلام : شہید محسن نقوی ( بمناسبت عالمی یوم امن جشن میلاد پرنور تفسیر کوثر شبیہہ رسول حضرت امام حسن علیہ السلام )

لوحِ جہاں پہ فکر کی معراجِ فن کا نام
لکھا ہے پنجتن کی حسیں انجمن کا نام
سوچا خزاں کے عہد میں جب بھی چمن کا نام
آیا مری زباں پہ امام حسن کا نام——–!

جس نے خدا کے دین کی صورت اُجال دی
وحشی دلوں میں امن کی بنیاد ڈال دی

سرچشمہء نجاتِ بشر، حسن کردگار،
انسانیت کے باغ میں پیغمبر بہار
حاجت روا، حسیں وہ اَنا مست بردبار
وہ اَمن و عافیت کی حکومت کا تاجدار

تشبیہہ دوں کسی سے مری کیا مجال ہے؟
بس اتنا کہہ رہا ہوں، حسن بے مثال ہے

زہرا ؑ کا چاند، ابنِ علیؑ، مصطفی ؐ کا نور!
جس کی جبیں سے پھوٹ رہی ہے شعاعِ طور
رقصاں ہے جس کی آنکھ میں ادراک کا سرور
جس کی ہر اک ادا سے نمایاں نیا شعور

چپ رہ کے جس نے باگ حکومت کی موڑ‌ دی
کھولی زباں تو ظلم کی رنجیر توڑ دی!

وہ مجتبی وہ عالمِ لَوحِ فلک مقام!
معراج فکر، سدرہ نظر، عرشِ اختشام
ایسا سخی، مَلک بھی کریں جس کا احترام
دشمن سے بھی لیا نہ کبھی جس نے انتقام

جس نے دعائے غیر کو تاثیر بخش دی
اپنے عدو کو اپنی ہی جاگیر بخش دی

اللہ رے آب و تابِ رُخِ ابنِ بوتُراب!
اب تک خراج دے کے گزرتا ہے آفتاب
لَوحِ جبیں، وہ علمِ امامت کا ایک باب
رفتار میں وہ عدل کہ محشر بھی دے حساب

بازو ہیں اس طرح سے عطا پر تلے ہوئے
جیسے فلک پہ صلح کے پرچم کھلے ہوئے

کاکُل کی تیرگی سے مکمل ہر ایک رات
چہرے کی چاندنی سے درخشاں ہے کائنات
دیتے ہیں جان، جنبشِ ابرو پہ معجزات
اَفشا ہے "راز کن” کہ کشادہ حسن کا ہات

ہیں شاخِ گل میں اوس کی بوندیں اَڑی ہوئی
یا زلفِ مجتبٰی میں ہیں گِرہیں پڑی ہوئی

آنکھیں ہیں یا چراغ اَبد کی فصیل کے
پلکیں ہیں یا حروف لبِ جبرئیل کے
عارض ہیں یا کنول مہ و انجم کی جھیل کے
اعضا ہیں یا نقوش خیالِ جمیل کے

چہرہ حسن کا ہے کہ شبیہہِ رسول ہے
عالم تمام نقشِ کفِ پا کی دھول ہے

یہ پھول پھول رنگ، طبیعت یہ باغ باغ
کونین پر محیط مزاجِ دل و دماغ
جس کی مئے اَنا سے پگھلنے لگے ایاغ
مہتاب حسنِ بندِ قبا سے ہے داغ داغ

جس کی مدد سے حق کی سدا برتری ہوئی
جس کی قبا کو دیکھ کے دنیا ہری ہوئی

جو دلفشیں گریز کرے نام و ننگ سے
انساں کو تولتا نہ ہو تیروتفنگ سے
جو آئینہ تراش لے وجدانِ سنگ سے
وہ امن آشنا، جسے نفرت ہو جنگ سے

صحرا، چمن کرے جو حدودِ چمن کے بعد
ایسا کوئی بشر نہیں دیکھا، حسن کے بعد

جس کا سلوک، خلقِ نبی کا سلام لے
حق دے کے جو عدو سے حقیقی مقام لے
دستِ اجل سے ہنس کے جو رخت دوام لے
اِک جنبشِ قلم سے جو پرچم کا کام لے

سلطانی بہشت، جسے کردگار دے
وہ کیوں نہ تاج و تخت کو ٹھوکر پہ مار دے

ٹکرائے گا حسن سے کہاں کوئی بے نسب
یہ وجہ ذوالجلال وہ اِبلیس کا غصب
حیدر کہاں، کہاں کوئی فرزندِ بنت شب
زہرا سے کیا ملے کوئی حمالہ الحطب

بیعت کی بحث ہی سرِ محفل فضول ہے
وہ پیکرِ خطا تو یہ ابنِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے

گردِ خزف کجا، رُخ دُر نجف کُجا
قطرہ کجا، یہ قلزمِ کوثر بکف کجا
در یوزہ گر کجا، شہ عالی شرف کجا
کنکر کجا، یہ جوہر حسنِ صدف کجا

"تحت الثریٰ کو ہمسرِ عرشِ علا کہوں؟
دنیا، ترے ضمیر کی پستی کو کیا کہوں؟

اے شہسوارِ دوشِ پیمبر مرے امام
اے والیِ بہشت بریں، رحمت تمام
تونے پیا ہے زہر سے لبریز غم کا جام
تجھ کو غرورِ عظمت سقراط کا سلام

انساں کو آشتی کا قرینہ سکھا دیا
تونے دلوں کو چین سے جینا سکھا دیا

عالم میں ہے نجاتِ بشر کی نوید تو
محشر میں باب خلدِ بریں کی کلید تو
دوبار راہ حق میں ہوا شہید تو
جنت تو کیا ہے، عرشِ معلی خرید تو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.