رئیس المتکلمین سلطان المناظرین شیخ مفید علیہ الرحمہ

ولایت نیوز شیئر کریں

(یہ آرٹیکل پہلی بار 21 اپریل 2021 کو شائع کیا گیا)

3 رمضان المبارک 413ھ شیخ مفید علیہ الرحمہ کا یوم وفات ہے ۔  شیخ (رح) کو شیعہ کلام اور مناظرے کا مؤسس ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ جبکہ ادب اور شعر میں عالی مقام کے حامل تھے۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ ایک دن میں ایک مجلس میں گیا تو ابن جوزی درس اخلاق دے رہا تھا میں اس درس میں موجود تھا جبکہ کسی کو خبر نہ تھی کہ میں وہاں موجود ہوں تو ابن جوزی نے میرے شعر سے استشہاد کیا ور کہا کہ ابن المعلم (شیخ مفید کا لقب) نے کیا خوب شعر کہا ہے ۔

آپ کا نام محمد بن محمد بن النعمان بن عبدالسلام ہے ۤپ کی ولادت 11 ذی القعد 336 ھ میں بغداد کے پاس عکبری نامی مقام پر ہوئی اسی لئے عکبری و بغدادی بھی ان کے القاب ہیں۔ آپ کا لقب المفید (رح) ، کنیت ابو عبداللہ جبکہ آپ ابن المعلم کے نام سے معروف تھے چونکہ آپ کے والد گرامی واسط میں معلم کے فرائض سرانجام دے رہے تھے ۔ معتزلی عالم علی بن عیسی رمانی سے ہونے والے ایک مناظرے میں جب انہوں نے معتزلی عالم کے تمام استدلالات کو باطل کرنے میں کامیابی حاصل کی تو وہ اس کے بعد سے انہیں مفید کہہ کر خطاب کیا جانے لگا۔

انہوں نے قرآن اور ابتدائی علوم کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ اپنے والد کے ہمراہ بغداد گئے جہاں انہیں بڑے بڑے برجستہ شیعہ و اہل سنت محدثین، متکلمین اور فقہاء سے استفادہ کیا۔

شیخ صدوق (متوفی 381 ھ)، ابن جنید اسکافی (متوفی 381 ھ)، ابن قولویہ (متوفی 369 ھ)، ابو غالب زراری (متوفی 368 ھ) و ابوبکر محمّد بن عمر جعابی (متوفی355 ھ) ان کے مشہور ترین شیعہ اساتذہ میں سے ہیں۔

شیخ مفید کی منزلت: شیخ مفیدؒ کے مقام کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جو ابن ابی الحدید نے اپنی کتاب ” شرح نہج البلاغہ میں ذکر کیا ہے :
شیخ مفید نے خواب دیکھا کہ آپ بغداد کی مسجدِ کرخ میں بیٹھے ہیں کہ اتنے میں سیدہ فاطمةالزھراء سلام اللہ علیہا امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے ہاتھ پکڑ کر مسجد میں تشریف فرما ہوئیں اور شیخ کے قریب پہنچ کر فرمایا: "یا شیخ عَلِّمھُما الفِقهَ” [یعنی اے شیخ ان دو کو فقہ کی تعلیم دیں]۔
شیخ خواب سے جاگ اٹھے اور سوچنے لگے: "یہ کیا خواب تھا جو میں نے دیکھا! میں کون ہوتا ہوں امام حسن اور امام حسن علیہما السلام کو تعلیم دینے والا؟!؛ حالانکہ خواب بھی سچا ہے کیونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی زیارت کا خواب شیطانی خواب نہیں ہوتا”۔
صبح ہوئی تو شیخ مسجد کرخ جاکر بیٹھ گئے اور کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جلیل القدر بی بی تشریف لائیں جن کا کنیزوں نے احاطہ کررکھا تھا اور دو صاحبزادوں کے ہاتھ ان کے ہاتھوں میں تھے۔ وہ شیخ کے پاس آئیں اور کہا: "یا شیخ عَلِّمهما الفِقهَ”۔ شیخ کو اپنے رؤیائے صادقہ کی تعبیر مل گئی تھی چنانچہ آپ نے دو سید زادوں کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھایا اور انہیں بہت زیادہ احترام دیا۔
یہ دو سیدزادے سید رضی المعروف "شریف” اور سید مرتضی "المعروف "عَلَمُ الہدی” ہی تھے جو اپنے عصر کے نامور فقہاء بن کر ابھرے اور تا قیامت امر ہوگئے۔

حق کس کی جانب ہے؟
نقل ہے کہ کسی مسئلے میں شیخ مفید اور سید مرتضی کے درمیان اختلاف واقع ہوا۔ 
دونوں نے مسئلہ لکھ کر مولا امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی بارگاہ میں ارسال کرنے کا فیصلہ کیا۔ 
کچھ عرصہ بعد خط کا جواب آیا۔ خط سبز رنگ کے جوہر سے تحریر ہوا تھا اور اس پر صرف ایک جملہ ثبت تھا جس میں خطاب بھی شیخ مفید کو ہوا تھا اور وہ جملہ یہ تھا: 
"انت شیخی و معتمدی و الحق مع ولدی علم الهدی" [یعنی اے شیخ مفید! آپ میرے شیخ اور میرے نزدیک قابل اعتماد ہیں اور حق میرے فرزند علم الہدی کی جانب ہے۔”

شیخ مفید نے بزرگ معتزلی استاد حسین بن علی بصری معروف بہ جعل اور نامور متکلم ابو الجیش مظفر بن محمد خراسانی بلخی کے شاگرد ابو یاسر سے علم حاصل کیا۔ اسی طرح سے انہوں نے ان کے کہنے پر اس زمانہ کے مشہور معتزلی عالم علی بن عیسی زمانی کے درس میں بھی شرکت کی۔

تقریبا ۴۰ برس کی عمر سے شیعوں کی فقہی، کلامی و حدیثی زعامت ان کے ذمے ہوئی اور انہوں نے شیعہ عقائد کے دفاع کے لئے دوسرے مذاہب کے علماء سے مناظرات کئے۔

تاریخی مناظرہ :معتزلی عالم سے آپ کے مباحثہ (جس کے سبب آپ کو مفید کا لقب ملا) کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ان کے استاد ابویاسر جن کے پاس آپ نے اپنی تعلیم شروع کی تھی ۔ انہوں نے آپ (رح) سے ایک دن کہا کہ آپ علی بن عیسی رمانی کے ہاں کلام کیوں نہیں پڑھتے ہو اور ان سے استفادہ کیوں نہیں کرتے ہو۔ تو اس پر آپ (رح) نے کہا :میں ان کو نہیں جانتا اور نہ ان سے زیادہ مانوس ہوں۔تو آپ کسی کو میرے ساتھ بھیجیں تاکہ وہ میری رہنمائی کر سکے ۔شیخ مفید (رح) فرماتے ہیں :کہ ابو یاسر نے ایسے ہی کیا اور ایک شخص کو میرے ساتھ بھیجا ۔ میں علی ابن عیسی کے پاس گیا ۔ تو اس کی مجلس اس کے شاگردوں سے بھری ہوئی تھی تو میں وہیں بیٹھ گیا ۔ جب مجلس ختم ہوئی اور لوگوں کا رش کم ہوا تو میں ان کے قریب گیا ۔اسی اثنا ء ایک شخص اندر آیا اور اس نے علی بن عیسی سے کہا کہ کوئی شخص باہر آیا ہے وہ آپ کی مجلس میں حاضر ہونا چاہتا ہے ۔ اور وہ بصرہ کا رہنے والا ہے ۔ علی بن عیسی نے پوچھا :کیا وہ اہل علم میں سے ہے؟اس شخص نے کہا :نوجوان ہے ۔مجھے نہیں معلوم لیکن آپ سے ملنے کا کہہ رہا ہے ۔علی بن عیسی نے اس کو آنے کی اجازت دی اور اس کا احترام واکرام کیا ۔

دونوں کے درمیان کافی لمبی گفتگو ہوئی ۔ اس بصری مرد نے علی بن عیسی سے کہا کہ یوم غدیر اور یوم غار (یعنی حضرت ابوبکر کا غار میں رسول کے ساتھ ہونا )کے بارے میں تمہاراکیا خیال ہے ؟ علی نے کہا: کہ خبر غار درایت ہے جبکہ خبر غدیر روایت ہے ۔ درایت سے جو استفادہ ہوتا وہ روایت سے نہیں ہوتا۔((یعنی درایت یقین کا فائدہ دیتی ہے چونکہ خبر غار قرآن میں اوراس لئے اس کا صادر ہونا یقینی اور قطعی ہے جبکہ خبر غار روایت ہے پس یقینی نہیں ہے ۔ )) شیخ مفید (رح) کہتے ہیں : بصری کے پاس اس بات کاجواب نہیں تھا اور وہ وہاں سے چلا گیا ۔

شیخ کہتے ہیں :ایک دن میں آگے بڑھا اور کہا : اے شیخ !میں آپ سے مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں ۔ اس نے کہا:کہ اپنا مسئلہ بتاؤ۔تو فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو امام عادل کے خلاف جنگ لڑے ۔ ا س نے کہا:وہ کافرہے ۔ پھر اس نے اپنی غلطی کی اصلاح کی اور کہ نہ کافر نہیں بلکہ فاسق ہے ۔ تو پھر میں نے کہا :امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) کے بارے میں کیا کہتے ہو۔ کہا:آپ (ع) امام عادل ہیں ۔ میں نے کہا :جنگ جمل ، طلحہ ا ورزبیر کے بارے میں کیا کہتے ہو۔ کہا : ان دونوں نے توبہ کرلی تھی ۔

میں نے موقع پا کر فوراً کہا : جنگ جمل درایت ہے جبکہ توبہ کی خبر روایت ہے۔ (چونکہ علی بن عیسی نے بصری کو جواب دیا تھا کہ درایت روایت سے زیادہ قوی ہے ۔ پس درایت (خبر غار ) کو لیں گے اور خبر غدیر چونکہ روایت ہے اس لیے اس کو نہیں لیں گے ۔ شیخ نے کہا کہ جنگ جمل درایت ہے پس اس کو قبول کریں گے جبکہ توبہ کی خبر روایت ہے اس کو نہیں لیں گے ۔)اس نے کہا :کیا تم اس وقت موجود تھے جب اس بصری نے مجھ سے سوال کیا تھا ۔ تو میں نے کہا: جی ہاں! میں موجود تھا پھر اس نے پوچھا :کہ تمہارا کیا نام ہے اور کس کے پاس پڑھتے ہو؟ تو میں نے کہا:میری پہچان ابن المعلم ہے اور میں ابو عبداللہ الجعلی کے پاس درس پڑھتا ہوں ۔

اس نے کہا :اپنی جگہ پر بیٹھو میں آتا ہوں پھر وہ اپنے گھر میں گیا اور جب واپس آیا تواس کے ہاتھ میں ایک رقعہ تھا جسے اس نے لکھا تھا اور اس کو کاغذ میں لپیٹ دیا تھا ۔ اور مجھے کہا: کہ یہ رقعہ ابو عبد اللہ تک پہنچادینا ۔ میں وہ رقعہ ابو عبد اللہ کے پاس لا یا اس نے اسے پڑھا ۔اور خود ہی ہنسنے لگا پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ اس کی مجلس میں تمہارے اور اس کے درمیان کیا ماجرا پیش آیا۔ چونکہ اس نے مجھے تمہارے بارے میں وصیت کی ہے ۔ اور تمہیں مفید کا لقب دیاہے۔ میں نے تمام قصہ ابو عبداللہ کو بتایا تو وہ مسکرا نے لگا۔

علماء نے ذکر کیا ہے کہ بہت بڑے مصنف تھے ۔ کئی رسالے ،کتابیں ، کئی کتابوں اور مسائل کارد اور جواب اور اس کے علاوہ امالی کو ملا کر آپ کی تقریبا دوسو سے زیادہ آثار بنتے ہیں ۔ محمد حسین نصار نے آپ کی کتابوں کی تعداد ۲۱۵ لکھی ہے جبکہ ان میں صرف ۴۱ ہم تک پہنچ پائی ہیں ۔ جبکہ باقی تاریخ کے حوادث کی نظر ہوگئیں ۔ ان موجود کتابوں میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں۔

1۔ الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد
2۔اجوبة المسائل السرویة
3۔اجوبة المسائل العکبریة
4۔تصحیح الاعتقاد یا الرد علی ابی جعفر ابن قولویه
5۔ الآمالی للشیخ المفید(رح)

الموتمر العالمی لالفیہ الشیخ المفید (رح) نے شیخ مفید (رح) کی وفات کے ہزار سال گزرنے پر ایک انٹرنیشل کانفرنس بلائی اور شیخ مفید(رح) کی تصانیف کو یکجا کرکے چھاپنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اب چودہ جلدوں میں ان کی تصانیف چھپ چکی ہیں۔

فہرست نجاشی کے مطابق شیخ مفید کی کتابوں اور رسائل کی تعداد 175 ہے۔ ان کی کتابوں کی مختلف علمی موضوعات کے اعتبار سے تقسیم بندی کی جا سکتی ہے۔ ان کی معروف ترین کتب میں علم فقہ میں المقنعہ، علم کلام میں اوائل المقالات اور سیرت ائمہ (ع) کے سلسلہ میں کتاب الارشاد قابل ذکر ہیں۔

3 رمضان 413 ہجری کو آپ(رح) نے وفات پائی۔ آپ کی نماز جنازہ بغداد کے بہت بڑے میدان "الاشنان ” میں ہوئی ۔ یہ میدان بہت بڑاتھا لیکن پھربھی یہ تنگ پڑگیا چونکہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے ان کے جنازے میں شرکت کی ۔ کہا جاتاکہ آپ کی تشییع جنازہ میں اسی ہزار لوگ شامل ہوئے۔ ان شرکت کرنے والوں میں شیعہ سنی اور عوام وخواص سبھی شامل ہوئے ۔آپ کی نماز جنازہ آپ کے شاگرد بزرگوار سید مرتضی علم الھدی ؒ نے پڑھائی۔ ان کی رحلت ان گنت مرثیے لکھے اور پڑھے گئے ۔

شیخ مفید ؒ کو دو سال کی مدت کےلئے بغداد میں ان کے گھر میں دفن کیا گیا ۔ پھر کاظمیہ میں امام جواد(ع) کے پاؤں جانب اور ابوجعفر ابن قولویہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

امام جواد ؑ کے قرب کاظمیہ بغداد میں شیخ مفیدؒ کا مزار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.