سرزمین ہند کی باب الاسلام حضرت بی بی پاکدامنؑ کے مرقد پر سفیر حسینؑ و یتیمان مسلم ؑ کا تاریخی پرسہ
یتیمان ِمسلم ؑ کی لاشیں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پانی کے بہاؤ کی مخالف سمت کربلا کی طرف سفر کرنے لگیں
پاکستان کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے ہزاروں ماتمیوں نے فقید المثال ماتم زنجیر زنی قمہ زنی و نوحہ خوانی کرکے حضرت عباس علمدار ؑ کی بہن کو پرسہ پیش کیا
حضرت رقیہ ؑکی تین بیٹیاں روز عاشور یزیدی فوج کے گھوڑوں کے سموں تلے پامال ہو گئیں
لاہور(ولایت نیوز رپورٹ ابو جروان ۔کاظم مہدی۔ تصاویر عقیل کاظمی) 9 ذوالحجہ کو پاکستان کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے ہزاروں ماتمیوں نے فقید المثال ماتم زنجیر زنی قمہ زنی و نوحہ خوانی کرکے حضرت عباس علمدار ؑ کی بہن شیر خداؑ کی دختر سرزمین ہند پر باب الاسلام کا درجہ رکھنے والی مخدرہ عصمت حضرت بی بی پاکدامن سیدہ رقیہ بنت علی ابن ابی طالب ؑ کے مرقد مقدسہ لاہور میں سفیر حسین ؑ حضرت مسلم بن عقیل ؑ اور ان کے معصوم فرزندان کی شہادت کا پرسہ پیش کیا۔
9 ذوالحجہ کو قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے عالمگیر یوم سفیر حسینیتؑ منانے کا اعلان کررکھا تھا۔ انہوں نے اس موقع پر اپنے پیغام میں فرمایا کہ عالم اسلام اور وطن عز یز پاکستان عالمی سفارتی محاذوں پر مسلسل ہزیمتوں سے دوچار ہیں مسلم ممالک کی فارن سروس اکیڈمیز میں حضرت مسلم ابن عقیل کی سیرت سفارتکاروں کو پڑھائی جائے تاکہ مسلم سفراء ہر مشکل و مصائب میں بھی دین و وطن کی ترجمانی کا حق ادا کر سکیں کشمیر و فلسطین کے مسائل اورپاکستان کے پانیوں پر بھارتی جارحیت کے مسائل کے پیچھے ناقص سفارتکاری ہی کارفرما ہے ۔ انہوں نے اس عہد کا اعادہ کیا کہ سیرت حضرت مسلم بن عقیلؑ پر کاربند رہتے ہوئے ولایت علی ابن ابی طالب ؑ ، عزاداری فرزند بتول ؑ، حرمت سادات ، احترام مرجعیت و قومی مرکزیت کی ترجمانی کا پرچم سربلند کئے رکھیں گے ۔
دربار بی بی پاکدامنؑ پر پرسہ داری کا سلسلہ ذوالحجہ کے ۤآغاز سے ہی شروع ہو جاتا ہے جو 9ذوالحجہ کو عروج پر پہنچ جاتا ہے جس میں صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر سے عزادار شرکت کیلئے خصوصی طور پر پہنچتے ہیں ۔ 9 ذوالحجہ کو مختلف علاقوں کے کلچر کے مطابق ماتم و عزاداری کا منظر نظر آتا ہے ۔
اس موقع پر ایک بڑا ماتمی جلوس تابوت مرکزی ماتمی حیدری دائرہ پاکستان کے زیر اہتمام مسافرخانہ بی بی پاکدامن ایمپریس روڈ سے برآمد ہو کر حضرت بی بی پاکدامنؑ کے مزار اقدس پر اختتام پذیر ہوا۔ جلوس میں حضرت مسلم ؑ اور ان کے فرزندان کے تابوت شامل تھے ۔ اس موقع پر شدید رقت انگیز مناظر دیکھنے میں آئے ۔
تحریک کے رہنماؤں نے اوقاف کی انتظامیہ کی جانب سے عزاداروں کے ساتھ عدم تعاون کی پرزور مذمت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ عزاداروں کو سہولیات فراہم کرنا اوقاف اور ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے ۔انہوں نے ٹی این ایف جے کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے مطابق شیعہ اوقاف کا مسئلہ حل کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے اس امر پر دکھ کا اظہار کیا کہ آج تک حکومت اسلام کی عظیم ہستی کا شایان شان مزار بھی تعمیر نہیں کر سکی۔
حضرت رقیہ بنت علی ؑ داستان کربلا کے منفرد باب کی حیثیت رکھتی ہیں جن کی تین بیٹیاں روز عاشور یزیدی فوج کے گھوڑوں کے سموں تلے پامال ہو گئیں ۔ شو ہر نامدار (فاتح خیبرؑ کے شاگرد جنہیں عرب میں اشجع الناس کا لقب حاصل تھا )حضرت مسلم ابن عقیل ؑ نے سفارت کاری کی انوکھی تاریخ رقم کرتے ہوئے کوفیوں کی دغا بازی کا شکار ہوکر جام شہادت نوش کیا اورآپکی شہادت داستان کربلا کا دیباچہ بن گئی ۔ بی بی رقیہ کے دو کمسن فرزندان انعام کے لالچ میں دیوانے ابن زیاد کے پیادے شقی القلب انسان حارث ابن عروۃ تمیمی کے ہاتھوں دریائے فرات کے کنارے حالت ِرکوع میں شہید کر دیے گئے اور سربریدہ اجسادِطیبہ دریائے فرات میں پھینک دیئے گئے۔ معطر بدن دریا میں گرے تو پانی میں تلاطم پیدا ہو گیا۔ آب ِرواں سکتے میں تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یتیمان ِمسلم ؑ کی لاشیں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پانی کے بہاؤ کی مخالف سمت کربلا کی طرف سفر کرنے لگیں؛
ایک مقام پر ایک جنگل میں کچھ اصحابِ امیر المؤمنین اور محبان ِاہل ِبیت ؑ اکٹھے تھی۔ جونہی انہوں نے دریا میں خون کی سرخ لکیریں دیکھیں اور دریا کے پانی سے مخصوص خوشبو کے جھونکے سونگھی، سمجھ گئے کہ خانوادۂ تطہیر میں کسی فرد کا خون ہوا ہے۔ یہ خوشبوئے مصطفٰی ؐ صرف اہل ِبیت ِرسول اللہ ؐ کے اجسام طاہرہ سے آتی ہے ۔یہ لوگ دریا کے کنارے مغموم و افسروہ کھڑے ہو گئے۔ اچانک انہوں نے دیکھا کہ دو سربریدہ بدن ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ان کی طرف آ رہے ہیں۔ ان کے سردار ’’ مُسَیَّب ؓ ‘ ‘ نے بلند آواز سے آل ؑ محمدؐ پرصلوٰۃ پڑھنا شروع کر دی تو وہ ان کی طرف آنے لگیں۔ ان اصحاب ِامیر المؤ منین ؑ نے دریا سے نکالا اور بیٹھ کر سوچ رہے تھے کہ یہ معصوم و طاہر بچے کس کے ہیں؟ تو اجسادِطیبہ پکاراٹھے؛
’’ اے ہماری جدؐ کے اصحاب ! ہم علی مرتضٰی ؑ کے نواسے اور مسلم ؑ ابن عقیل ؑ کے فرزند ہیں۔ اہل کوفہ نے ہمارے والد مسلم ؑ بن عقیل ؑ کو کوفہ بلا کر شہید کر دیا۔ ہمیں بھی ان ظالموں نے دریائے فرات پر بڑے جورو جفا سے قتل کر دیاہی۔ ہمارے آقا و مولا امام حسین ؑ مکہ سے کوفہ کی طرف چل پڑے ہیں۔ خدارا !انہیں اطلاع دیں اور روکیں کہ وہ اہل ِجفا کوفہ کے نرغہ میں نہ آ جائیں۔‘‘
اسی وقت ان اصحاب ِامیر المؤمنین ؑ نے قاصدمکہ کی راہ میں ارسال کر دیے اور ابوتراب کے نواسوں کو تراب کے سپرد کردیا۔ اس گروہ کے سردار کا نام ’’ مسیب ؓ ‘‘ تھاجس وجہ سے یہ قصبہ مسیب کہلاتا ہے۔ اور آج بھی مرجع خاص و عام ہے ۔