سانحہ بری امامؒ ایک درس ایک تاریخ…خود کش دھماکہ کے باوجود علم عباسؑ سربلند رہاماتم کی صدائیں مزید تیز
سانحہ بری امامؒ ایک درس ایک تاریخ…خود کش دھماکہ کے باوجود علم عباسؑ سربلند رہاماتم کی صدائیں مزید تیز
تحریر: علا حیدر
27مئی 2005پورے پاکستان سمیت دنیا بھر سے عزادار فرزند باب الحوائج امام موسی ٰ کاظمؑ بانئ اسلام آباد سلطان الفقراحضرت شاہ عبد الطیف کاظمی المشہدی بری امامؒ کو ان کے مظلوم جدامام حسین ؑ کا پرسہ دینے کیلئے مزار کے احاطے میں اپنے ماتمدار قائد آغا سید حامد علی شاہ موسوی کی آمد اور خطاب کے منتظر تھے ۔قائد ملت جعفریہ آقائے موسوی نے اس روز کو قرآن کی بے حرمتی کے خلاف یوم احتجاج کے طور پر منانے کی بھی کال دے رکھی تھی ۔
جیسے ہی ڈیرہ سخی شاہ چن چراغ آل پاکستان سید فقیر ماتمی تنظیم کے سربراہ باوا سید ریاض حسین شاہ مرحوم کی جانب سے منبر سے آغا سید حامد علی شاہ موسوی کا نام دہرایا گیا ایک بزدل خود کش حملہ آور نے خود کو بارودی جیکٹ کے ہمراہ اڑا لیا اور جہنم کا ایندھن بن گیا آقائے موسوی اس دہشت گرد منصوبہ بندی میں محفوظ رہے لیکن ان کے 20عزادار فرزندموقع پر شہید ہوگئے اور 100سے زائد زخمی ہوئے ۔
مجلس عزا کا پنڈال تو بارودی دھماکے سے اڑ گیالیکن مجلس عزا کو روکنے اور عزادار قائد آغا سید حامد علی شاہ موسوی کی آواز دبانے کا شیطانی منصوبہ پورا نہ ہو سکا۔آقای موسوی نے تباہ شدہ پنڈال میں مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دشمن نے ہماری طاقت کا غلط اندازہ لگایا ہے دھماکے اور دہشت گردی کے ذریعے ہمیں راہ حسینیت سے ہٹا دینے کی منصوبہ بندی خام خیالی ہے ہم شجاعت حیدریؑ ،استقامت حسینیؑ اور صبر زین العابدین ؑ کے وارث ہیں چودہ سو سال سے جاری دہشت گردی کا مقابلہ سینہ سپر ہوکر مظلومیت سے کرتے رہے ہیں آئندہ بھی سنت سیدہ زینب عزاداری سید الشہدا ء امام حسین ؑ کو ہر حال میں جاری و ساری رکھیں گے کیونکہ ماتم و عزاداری دین اسلام و قرآن و رسولؐ کی شان میں گستاخیوں کے خلاف سب سے بڑا اور موثر احتجاج ہے۔
دھماکے کے بعدکچھ عناصر کی جانب سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر موجود وزیر اعظم ہاؤس و پارلیمنٹ کو جلاؤ گھیراؤ کی نذر کرنے کے مشوروں کو جھٹکتے ہوئے آقائے موسوی نے کہاکہ سانحہ کے بعد ایک پتہ بھی توڑنے والا ہم میں سے نہیں ہوگاکائنات میں کوئی احتجاج عزاداری سے بڑا نہیں عزداری پر حملہ آور قوتوں کو عزاداری بجا لا کر ہی نیچا دکھائیں گے، حکومتیں دہشت گردوں کالعدم جماعتوں اور انسداد دہشت گردی ایکٹ سے کتنی ہی چشم پوشی برتیں ظالم دہشت گردوں کوصبر حسینیؑ اور اپنے عقیدے پر استقامت کے ساتھ شکست دیں گے۔شہدائے بری امام کے پانچ روزہ سوگ میں پورے ملک میں عزاداری برپا کریں گے۔
اور قائد کے خطاب کے بعد شہداء کے مقدس لہو کی مہکار میں عزاداری کا سلسلہ حسب دستور جاری رہا اور بری شاہ لطیف ؒ کا صحن ماتم کی صداؤں سے پہلے سے زیادہ گونجنے لگا۔
خودکش حملے سرعام کرو تم جتنا قتل عام کرو
یہ ماتم کیسے رک جائے؟ ہوتی ہے قیادت زینب ؑ کی (سبطین شاہ)
سانحہ بری امام سمیت دہشت گردی کے واقعات جہاں ہمیں شہدا کی قربانی ،عزاداروں کی استقامت اور باکردار قیادت آقائے موسوی کی فہم و فراست بصیرت کی یاد دلاتے ہیں وہاں دیگر بہت سے اسباق بھی اپنے سینے میں سموئے ہوئے ہیں ۔
ایک عالمی سازش کے تحت 70کی دہائی کے آخر میں پاکستان میں جب ضیائی مارشل لاء کا شب خون مارا گیا تو قتل و غارت گری کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا جو نئی صدی کے آغاز تک خود کش حملوں میں تبدیل ہو گیا۔ان سانحات سے جہاں ہر گھر ماتم کدہ بنا وہاں ہر سانحہ کے بعدقوم کی صفوں میں موجود بد عقیدہ عناصر قوم کے جوانوں کو جلاؤ گھیراؤ پر مائل کرتے تھے میڈیا کو مرغوب مار دھاڑ والے ’ ایک کے بدلے سو ماریں گے‘ جیسے جذباتی نعرے بلند کرتے تھے اور مکتب تشیع کی حقیقی قیادت کو ہتھیار نہ اٹھانے اور گوشہ نشینی کے طعنوں سے نوازتے تھے لیکن حالات نے پلٹا کھا کر ان کے منافقانہ چہروں سے ایسا نقاب پلٹا کہ آج وہ بڑھک بازعناصر انہی دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے ساتھ بیٹھے ایک دوسرے کے منہ میں نوالے ڈالتے نظر آتے ہیں اور ڈیرہ اسمعیل خان سے کراچی تک ہزاروں شیعہ سنی شہیدوں کے قاتلوں کے سرپرستو ں کو اپنا قائد قرار دے کر شہداء کے لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکتے نظر آتے ہیں ۔اگرچہ قوم کی اکثریت تو قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ان بہروپیوں سے دور رہی لیکن جو جوان اور ان کے خاندان گرگٹ کی طرح پالیسیاں بدلنے والے رہنماؤں کے جھانسے کا شکار ہوئے ان کے نقصانات کا مداوا کیسے ہوگا؟؟؟
قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے دہشت گردی کے بدترین ادوار میں بھی پاکستان میں کسی بھی شیعہ سنی لڑائی کی نفی کی قوم کو ہتھیار اٹھانے کے نعروں کی حوصلہ شکنی کی اپنے بیانات او رپالیسیوں کا محوردین وطن کی سلامتی اور آئمہ طاہرین کی سیرت کو قرار دیئے رکھا ۔ پاکستان کو خانہ جنگی کا شکار کرکے لبنان و شام بنا ڈالنے کے خوفناک منصوبہ کو بھانپتے ہوئے ہر دہشت گردی کے بعد ہمیشہ پاکستانی ریاست حکومت اور فوج سے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔آج یہ اسی پالیسی کا اعجاز ہے کہ آپریشن راہ راست ،ضرب عضب ،سے خیبر فور وآپریشن رد الفساد تک پاک فوج و سیکیورٹی فورسز کے دلیرانہ اقدامات کے نتیجے میں اسلام آباد سے سرحدوں تک دہشت گردی کی اکثر نرسریاں اکھاڑ ڈالی گئی ہیں ۔ پورے ملک کے ہر گلی کوچہ سے میلادالنبیؐ اور عزاداری کے جلوس پوری آب و تاب کے ساتھ برآمد ہوتے ہیں ہر نعت گو اور ماتمی عزادار کا سربلند اور سرفراز ہے جبکہ باقیماندہ دہشت گرد اپنے منہ اور نام چھپائے پھرتے ہیں ۔بے گناہوں کو خون سے نہلانے والے اور ان کے مقدس لہو کا سودا کرنے والے اپنے زخم چاٹتے ہوئے دوبارہ سر جوڑے نئی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں ۔
سانحہ بری امام کے شہیدوں کا لہو یہ درس دے رہا ہے کہ دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی کا راز راہبر نما راہزنوں سے بچنے اورحیدری ؑ و زینبیؑ راہ پر گامزن علی مسجد کی فقیرانہ قیادت سے وابستہ و منسلک ہونے میں ہے۔جس کا وجود اندر باہر کے حملوں کے باوجود آمر مطلق ضیاء الحق کے زندانوں سے لیکر دہشت گردی سے جھلسے ہوئے میدانوں میں صدائے عزا بلند رکھنے تک کامیابیوں و کامرانیوں کی بے مثل تاریخ رکھتا ہے ۔
زخموں سے بدن گلزار سہی ،پراُن کے شکستہ تیر گنو!
خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے
دشت کربلا سے سامرا سلطا ن الفقرا ء حضرت بری امامؒ کے مزار تک ہر دہشت گردی سفاک ظالموں کو یہ خبر دے رہی ہے کہ حسینیت ایسا چراغ ہے جس کا شعلہ ظلم کی آندھیوں میں روشن سے روشن تر ہوہ جاتاہے کیونکہ یہ دیپ شہیدوں کے لہو سے فروزاں ہے۔
سْکوتِ شامِ غریباں میں سْن سکو تو سْنو!
کہ مَقتلوں سے ابھی تک صَدائیں آتی ہیں
لہْو سے جِن کو منوّر کرے دماغِ بَشر،
ہوائیں ایسے چَراغوں سے خَوف کھاتی ہیں(شہید محسن نقوی)
راہ شہادت و سعادت کے خوش بخت راہیوں ۔بری امام کے شیعہ سنی عزادار شہیدوں پر سلام
راہ حق کے شہیدوں کو سلام
بیشک اہل تشیع کے راہنما آغا حامد موسوی صاحب کی فکرکل بھی درست تھی اور آج بھی کامیاب و کامران اور سرخروئی کی ضمانت ہے, جبکہ قوم کے شہداء کی لاشوں پر سیاست کرنے والوں کو وقت کے تھپیڑوں نے آخر کار انہی دہشتگردوں کے سرپرستوں کی جھولی میں لا پھینکا ہے جن کے ہاتھ بیگناہ شیعہ سنی برادران کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور یہ اب جلسوں میں علی الاعلان انہی منافقین کو اپنا قائد و مائی باپ تسلیم کر رہے ہیں. گویا:
"پنہچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا”