بقیع کے مظلوم کا پرسہ: ایران میں فرزندباقر العلومؑ کے مزار پر عزاداروں کا ہجوم

ولایت نیوز شیئر کریں

مشہد اردھال ،کاشان (ولایت نیوز۔ تحقیق مولانا ملک غضنفر عباس) ایران کے مختلف شہروں سے آنے والے عزاداروں سمیت دنیا کے مخلتف ممالک سے ۤائے ہوئے زائرین کی کثیر تعداد  سانحہ کربلا کے عینی شاہد پانچویں امام باقر العلوم کی شہادت کاپرسہ دینے کیلئے کاشان میں ان کے فرزند شہزادہ سلطان علی ابن محمد ؑ کے مزار پر جمع ہے اور نوحہ خوانی و ماتم کرکے مظلوم شہزادے کو ان کے مظلوم بابا کا پرسہ دے رہے ہیں ۔

امام زادہ سلطان علی ابن محمد باقر علیہ السلام

حضرت سلطان علی ابن محمدباقرعلیہ السلام کا تعلق خاندان عصمت و طهارت سے ہے ۔

شیخ مفیدنے امام محمد باقر علیہ السلام کی سات اولاد لکھی ہیں: «ابوعبدالله جعفر ابن محمد اور عبدالله که جو ام فروه بنت قاسم ابن محمد ابن ابی بکرتھے اور ابراهیم ، عبیدالله که جو ام حکیم سے تھے اور یہ دونوں امام کی زندگی ہی میں انتقال کر گئے تھے ،علی اور زینب جو کہ ام ولد سے تھے ام سلمہ معروف تھیں ام ولد کے نام سے ۔

اولاد

مصعب زبیری لکھتا ہے : علی ابن محمد علیہ السلام کی ایک بیٹی تھی کہ جس کا نام فاطمہ تھا اور اس سے موسی ابن جعفر ابن محمدباقر علیہ السلام نے شادی کی ۔

آپ کا ایک بیٹا تھا کہ جس کا نام احمد ابن علی ابن محمد باقرعلیہ السلام تھا کہ جن کی قبر مبارک اصفہان میں موجود ہے۔
ریاض العلماء لکھتے ہیں : سید آجل سید علی ابن مولانا امام محمدباقر علیہ السلام بڑی عظمت و شان کے مالک ہیں وہ کسی تعریف کے محتاج نہیں ہیں اور آج بھی لوگ مسلسل کرامات کو دیکھ رہے ہیں ۔

ایران ہجرت

اهل بیت علیھم السلام کے چاہنے والوں نے چهل حصاران اور فین کاشان سے کچھ خط امام محمدباقر علیه السلام کی خدمت میں پیش کیے اور عرض کی کہ اپنی اولاد میں کسی کو ہمارے پاس بھیجیں تاکہ ہم ان سے علمی استفادہ کر سکیں ۔
امام (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے جعفر صادق علیہ السلام سےکہا کہ اپنے بھائی علی کے لیے سفر کا سامان مہیا کرو اور اسے کاشان کی طرف روانہ کرو تاکہ وہاں کے لوگوں کو احکام الہی سے آشنا کرے ۔

جب آ پ فین کاشان پہنچے تو 6 ہزار لوگوں نے استقبال کیا اور آپ نے جاسب اور خاوہ کے مقام پر تبلیغی کام انجام دئے وہ جگہ آج جامع مسجد کے نام سے معروف ہے کاشان کی جامع مسجد وہ جگہ ہے کہ جہاں آپ نماز جمعہ اور باقی خدمات انجام دیتے تھے اور لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم نے ان کی وجہ سے یہاں بہت کرامات دیکھی ہیں ۔

آپ خطوں کے ذریعے اپنے بابا سے رابطے میں تھے لیکن پردیس میں  اپنے بابا کے شھید ہونے کی خبر سنتے ہیں ۔

سلطان علی نے اس علاقے میں تین سال تک تبلیغ اور لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کی یہاں تک ایک اموی حکمران کہ جو اس زمانے میں قم کا فرمانروا تھا، ان کی اس علاقے میں موجودگی اور عوام میں ان کی مقبولیت سے باخبر ہو گيا۔ اس نے سلطان علی کو قتل کرنے کے لیے ایک لشکر بھیجا۔ جس نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو اردہال میں شہید کر دیا۔

شہادت و تدفین

بابا کی شھادت کے تین سال بعد دشمنوں نے آپ کو بھی چین نہ جینے دیا دشمنوں کی ایک بڑی تعداد نے ۲۷ جمادی الثانی کو آپ کو بھی شھید کر دیا ۔

کاشان کے مغربی علاقے میں ایک جگہ کہ جس کا نام مشھد اردھال ہے وہاں پر آپ کی مزار ہے ۔ اس جگہ کا پہلے تو کوئی اور نام تھا لیکن آپ کی شھادت کے بعد مشھد اردھال پایا۔

امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے ساتھ شباہت

کربلا معلی میں دس محرام الحرام کو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ 72 جانثار تھے امامزادہ سلطان علی کے ساتھ بھی 72 جانثار تھے امام حسین علیہ سلام کی فوج کے جرنیل کے بازو قلم ہوئے اس امام زادے کے جرنیل کے بھی بازو قلم ہوئے جہاں امام حسین علیہ سلام گھوڑے سے اترے ہیں وہاں شہید نہیں ہوئے جہاں شہید ہوئے وہاں دفن نہیں ہوئے امام سلطان علی بھی اسی طرح جہاں گھوڑے سے اترے ہیں وہاں شہید نہیں ہوئے جہاں شہید ہوئے وہاں دفن نہیں ہوئے جب گھوڑے سے اترے ہیں ایک پتھر کا سہارا لے کر بیٹھے شام کا رہنے والا ارقم نامی نے جناب سلطان کو شہید کیا لاش کے ٹکڑے کیے ۔ قالین میں لاش کو ڈال کر امام زادے کو دفن کیا گیا امام حسین علیہ السلام کی لاش پامال کی گیی جناب سلطان علی کی لاش کے ٹکڑے کیے گے۔

قالی شویان

شہزادہ سلطان علی ؑ کی مظلومانہ شہادت کی یاد میں موسم خزاں کے سترہویں دن ہر سال  امام کے غسل و کفن کی رسم منعقد ہوتی ہے کیونکہ شہزادے کی لاش کو  قالین میں ڈال کر کیا گیا تھا۔ مذہبی پروگرام "قالی شویان”  کو ایران کی معنوی میراث کی فہرست میں شامل کیا گيا ہے۔

روایات کے مطابق جب فین کے لوگوں کو فرزند امام کی شہادت  کا پتہ چلا تو حیرانی و پریشانی میں اردہال کی طرف روانہ ہوئے لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو سلطان علی شہید ہو چکے تھے۔ لوگوں نے انہیں کمبل میں لپیٹا اور قریب میں بہنے والی نہر میں ان کو غسل دیا اور پھر دفن کر دیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک ہر سال مہر ماہ کے دوسرے جمعہ کو فین اور کاشان کے ہزاروں لوگ قالیشویان کے نام سے روایتی رسومات انجام دیتے ہیں۔

قالی شویان کے دن،  قریب و دور کے علاقوں سے ہزاروں لوگ اردہال آتے ہیں اور امام زادہ سلطان علی کو علامتی غسل دینے کی رسومات کو دیکھتے ہیں۔ ان رسومات میں فین کاشان اور بعض دیگر قریبی دیہاتوں کے لوگ شرکت کرتے ہیں۔ ان رسومات میں امام زادہ سلطان علی کے مزار کا ایک قالین گول شکل میں لپیٹا جاتا ہے جسے کچھ نوجوان اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں اور مزار کے مشرق میں چند سو میٹر کے فاصلے پر واقع چشمے کی طرف لے جاتے ہیں۔ ان نوجوانوں کے پیچھے ایک اور گروپ چلتا ہے جس کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہوتی ہیں اور وہ لاٹھیوں کو ہوا میں لہر کر امام زادہ سلطان علی کے قاتلوں سے علامتی جنگ کرتے ہیں۔ قالین کو چشمے کے کنارے زمین پر رکھ دیا جاتا ہے اور چشمے کے پانی کو امام زادہ کو غسل دینے کی علامت کے طور پر قالین پر ڈالا جاتا ہے اور پھر اسی جوش و عقیدت سے قالین کو واپس مزار میں لایا جاتا ہے۔

مشہد ارھال کاشان
مشہد ارھال کاشان

وصیت
آپ نے اپنے کے ایک دوست کو آخری وقت وصیت کی کہ جس کا نام خواجہ ملک شاہ دید تھا اسے فرمایا:

اے میرے دوست میری کچھ وصیتیں ہیں :

میرا بھائی سلطان محمود دشمنوں کے ڈر سے عبدالکریم کے گھر چھپا ہوا ہے اسے کسی طریقے  سے چہل حصاران اور فین کے لوگوں تک پہنچاؤ تاکہ کوئی صدمہ نہ دیکھے ۔

ایک خط میرے بھائی امام صادق علیہ السلام کو لکھو اور انہیں اس پوری داستان سے آگاہ کرواور لکھو کہ آپ کے بھائی نے کہا کہ دشمنوں نے فرصت نہیں دی کہ ایک مرتبہ بھی بھائی کا دیدار کر سکوں ۔

فین اور چہل حصاران کے لوگوں کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ میری قبر اسی جگہ بنائیں کہ جہاں میں نے بتایا تھا ۔

کرامات

آپ کی بہت سی  کرامات  مشھور ہیں :

ایک معتبر شخص کہ جو کاشان کے رہنے والے تھے انہیں کینسر کی بیماری لاحق ہو گئی طبیب نے جواب دے دیا تو وہ مشھد اردھال کی طرف آتے ہیں آکر دعا کرتے ہیں اور دل میں یہ خیال آتا ہے کہ کیوں نہ آج رات ادھر ہی رہ جاؤں جب رات ہوئی تو خواب میں دیکھا کہ آواز آئی کہ اٹھو حضرت سلطان علی آرہے ہیں جیسے ہی انہیں دیکھا تو میں کانپنے لگ گیا انہوں نے کہا کہ ہم سے ناامید نہ ہوا کرو اور اپنی نماز زیادہ پر توجہ کرو اور نماز کو زیادہ اہمیت دو یہ کہہ کر وہ چلے گئے اور میں ایک دم اٹھا تو دیکھا اب کوئی مریضی نہیں ہے۔

سرداب

حضرت سلطان علی کے مزار کے نیچے ایک سرداب ہے کہ جس کا طول 6 میٹر اور عرض 3 میٹر اور ارتفاع 3/5 میٹر ہے اس سرداب کے بارے میں بہت سی باتیں مشھور تھیں ہر انسان اپنے اعتبار سے باتیں کرتا ہے لیکن 1313 شمسی میں قم کا حکمران مشھد اردھال آتا ہے ہے اور حکم دیتا ہے اس سرداب کو ایک طرف سے کھولیں اور میں خود دیکھنا چاہتا ہوں کہ اس میں کیا ہے جب یہ حکمران اندر گیا تو تقریباً 100 تابوت اس سرداب میں دیکھے اور ان کے ساتھ ایک تختی دیکھی کہ جس پر لکھا تھا کہ یہ تابوت حضرت سلطان علی کے چاہنے والوں کے ہیں حکمران کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ ان تابوتوں میں میت ایسے تھے کہ جیسے ابھی ابھی انہیں سلایا گیا ہو ۔

1341 شمسی میں آیت الله مرعشی نجفی خود اس سرداب کو دیکھنے گئے اور انہوں نے بھی ان ۱۰۰ تابوت کی تصدیق کی ہے ۔

حوالے جات:
۱۔ شیخ مفید، الارشاد، ص۳۹۴
۲۔ زبیری، نسب قریش، به نقل از حسینی زرباطی، بغیة الحائر فی احوال اولاد الامام باقر ص۱۴۸/المشاهد العتره الطاهره، ص ۲۷۰.
۳۔ حسینی زرباطی، بغیة الحائر فی احوال اولاد الامام باقر ص۱۴۶/مجموعه تاریخی مذهبی مشهد اردهال، ص۳۶.
۴۔ به نقل از حسینی زرباطی، بغیة الحائر فی احوال اولاد الامام باقر ص۱۴۳
۵۔ مجموعه تاریخی، مذهبی مشهد اردهال، حسین فرّخ یار، ص۳۷.
۶۔ نور باقر، ص۵۴.
۷۔ نور باقر، ص۵۷.
۸۔ توفیق، شهید اردهال، ص۴۰.
۹۔ توفیق، شهید اردهال، ص۳۷–۴۴.
۱۰۔ نقض، عبدالجلیل قزوینی، ص199
۱۱۔ شیخ عباس قمی، منتهی الامال، ص۱۳۳۰
۱۲۔ مجموعه تاریخی، مذهبی مشهد اردهال، ص۵۷.
۱۳۔ مجموعه تاریخی، مذهبی مشهد اردهال، ص۱۶۶.
۱۴۔ شهید اردهال، ص۴۶
۱۵۔ نور باقر، ص۹۳.

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.