خیرالنساءؑ کے لعل کے ماتم کی صدا ہے۔۔ غریب الغرباء امام کی مظلومانہ شہادت

ولایت نیوز شیئر کریں

خیرالنساءؑ کے لعل کے ماتم کی صدا ہے۔۔ غریب الغرباء امام کی مظلومانہ شہادت

مظلوم بے وطن یہ میرا مولا رضاؑ ہے
ہائے جس کو زہر لوگو مسلماں نے دیا یے

سب آنکھیں کرو بند دہائی ہے دہائی
اک بی بی عزاداروں یہاں شام سے آئی
لپٹی ہے جنازے سے نہیں سر پہ ردا ہے

آئے ہیں جنازے پہ نبیؐ شاہ اممؑ بھی
کلثومؑ رقیہؑ بھی ہیں معصومہءِ قمؑ بھی
وہ بی بی ہے کربل میں چھنی جسکی ردا ہے

مامون عباسی کی عنایت ہے یہ لوگو
ہائے آل پیمبر سے عداوت ہے یہ لوگو
سیدوں سے ذرا دیکھو یہ امت کی جفا ہے

روتے ہیں فرشتے بھی زمیں اور زماں بھی
ہائے لوح و قلم عرش بریں کون و مکاں بھی
خیرالنساء کے لعل کے ماتم کی صدا ہے

آٹھویں برحق امام علیہ السلام کی امامت کی مدّت تقریباً ۲۰ سال تھی۔اس مدّت ِ امامت کو تین علٰیحدہ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:امامت کے پہلے ۱۰ سال عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں گذرے،اگلے ۵ سال ہارون کے بیٹے امین کی خلافت کے دوران بسر ہوئے اور آخری ۵ سال ہارون کے دوسرے بیٹے مأمون کے زمانے میں بیتے جبکہ مامون ایک وسیع حکومت و سلطنت پر مسلط ہو چکا تھا۔
مامون نے حضرتؑ کو مدینہ نہ رہنے دیا اُس کی خام خیالی یہ تھی کہ حضرتؑ کو اپنے پاس بلا کر مؤمنین و مسلمین سے جدا کرکے اُن کے ذریعے اپنے مفادات حاصل کرسکے گا اور اس طرح اُس کی حکومت مضبوط تر ہو جائے گی اور کوئی خطرہ بھی لاحق نہیں ہوگا لیکن امام علیہ السلام کو مدینہ سے ہجرت کرواکر جب اس نے دیکھ لیا کہ اُس کی پالیسی کامیاب نہیں ہورہی اور مطلوبہ نتائج نہیں مل رہے بلکہ اس کے برعکس اسلامی معاشروں کے درمیان امام رضا علیہ السلام کی عظمت و محبت روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور حضرتؑ کے اخلاق، علم اور دیگر تمام صفات و خصوصیات اور مناقب و فضائل کا نور آئے دن پھیلتا جا رہا ہے تو اس غاصب خلیفہ نے اپنے آباد و اجداد کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس معصوم امام علیہ السلام کو شہید کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
اب مامون جانتا تھا کہ جس قدر وقت گذرتا چلا جائے گا،امام علیہ السلام کی حقانیت اور اس کی سازشیں برملا ہوتی چلی جائیں گی،دوسری طرف سے مامون کے اس ولایتعہدی کے کام سے عباسی اس سے ناراض تھے اور یہ ناراضگی اس قدر مخالفت میں تبدیل ہوگئی تھی کہ عباسیوں نے بغداد میں ابراہیم بن مہدی عباسی کے ہاتھ پر بیعت کرلی اس طرح مأمون کی حکومت کو طرح طرح کے خطرات لاحق ہو گئے تھے لہٰذا اُس نے فیصلہ کیا کہ مخفیانہ طور پر امام علیہ السلام کو قتل کروادے،اس غاصب و سنگدل خلیفہ نے معصوم امام علیہ السلام کو مسموم کردیا تاکہ امامؑ کے خطرے سے بھی نجات حاصل کرسکے اور عباسیوں اور اپنے طرفداروں کو بھی اپنے ساتھ متحد کرسکے۔
مأمون نے حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد بنی عباس کو لکھا:تم لوگ تنقید کیا کرتے تھے کہ میں نے ولیعہدی کا منصب و عہدہ کس لیے علی بن موسيٰ الرضا کے سپرد کردیا ہے۔آگاہ ہو جاؤ کہ وہ انتقال کر گئے ہیں،پس میری اطاعت میں آجاؤ۔
مأمون کوشش کررہا تھا کہ امام رضا علیہ السلام کے چاہنے والوں اور پیروکاروں کو شہادت کا اصلی ماجرا معلوم نہ ہو اس لیے تظاہر اور عوام فریبی کی چالوں کے ذریعے اپنی جنایت و جرم چھپانا چاہتا تھا اور یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ امام رضا علیہ السلام اپنی طبیعی موت اس دنیا سے رحلت کر گئے ہیں لیکن حقیقت مخفی نہیں رہ سکی اور اس غریب الغرباء امام علیہ السلام کے خاص اور قریبی اصحاب حقیقت سے باخبر ہو گئے۔
’’ابا صلت ہروی‘‘جو امام رضا علیہ السلام کے نزدیکی اور خاص صحابی تھے،انہوں نے امام علیہ السلام اور مأمون کے درمیان ہونے آخری گفتگو اور شہادت کے ماجرے کو بیان کیا ہے:
’’احمد بن علی انصاری کا کہنا ہے کہ میں نے اباصلت سے پوچھا:مأمون تو امام رضا علیہ السلام کی محبت کا دعویدار تھا اور ان کا ظاہر میں بہت احترام کرتا تھا،اُس نے حضرتؑ کو اپنا ولیعہد قرار دیا تھا پس کیسے ممکن ہے کہ حضرت کے قتل کا اقدام اُس نے کیا ہو؟
ابا صلت نے جواب میں کہا:چونکہ مأمون نے امام علیہ السلام کی عظمت و بزرگواری کو دیکھا تھا اس لیے احترام کا اظہار کرتا تھا اور انہیں ولیعہد بنانے کی اس لیے کوشش کی تھی تاکہ لوگوں کے سامنے یہ ظاہر کرسکے کہ امام(نعوذ باللہ) دنیا کی چاہت رکھتے ہیں اور اس طرح لوگوں کی نظروں میں امام علیہ السلام کا مقام گرانا چاہتا تھا لیکن جب اُس نے دیکھا کہ اُس کی سازشوں کے باوجود امام علیہ السلام کے زہد و تقويٰ میں کچھ فرق نہیں آیا ہے اور لوگوں نے بھی امام ؑ سے زہد و تقويٰ کے خلاف کوئی چیز نہیں دیکھی ہے اسی لیے لوگوں کے درمیان حضرت ؑ کی فضیلت و مقام میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے تو مأمون نے مختلف شہروں سے نام آور متکلم حضرات کو اکٹھاا کیا اور اس امید پر کہ ان میں سے کوئی ایک تو کسی علمی بحث میں امام ؑ پر غلبہ کرسکے گا اور اس طرح حضرت ؑ کا علمی مقام دانشوروں کی نظروں میں گرجائے گا اور پھر ان کے ذریعے یہ بات عام لوگوں تک بھی مشہور ہو جائے گی لیکن دور دراز سے آنے والے یہودی،مسیحی،آتش پرست،صائبی،برہمنی،ملحد اور دہری دانشوروں اور مسلمانوں کے مختلف فرقوں کےعلماء میں سے ہر ایک نے جتنے بھی سوالات اُٹھائے،ان کے مدلل جوابات پائے،کوئی شخص بھی امام علیہ السلام پر علمی غلبہ نہیں پاسکا اور سب کے سب متفقہ طور پر حجت خدا کی اعلمیت کے قائل و معترف ہو گئے کہ حضرتؑ سے زیادہ علم رکھنے والا اور علوم و معارف کا ایسا سمندر کوئی اور موجود نہیں ہے۔
اس طرح کے تأثرات کے بعد لوگ کہنے لگے:’’خدا کی قسم امام رضا علیہ السلام خلافت کے منصب کیلیے مأمون سے زیادہ شائستہ،سزاوار اور لائق ہیں’’۔ مأمون کے کارندے یہ خبریں اُس تک پہنچاتے تھے اور وہ بہت غضبناک ہو جاتا تھا اور جوں جوں حسد کی آگ میں جلتا رہتا تھا۔حجتِ خدا امام رضا علیہ آلاف التحیۃ والثناء بھی مامون کے سامنے حق بات کہنے سےنہیں ڈرتے تھے اور نہایت بے باکی سے حق بات کہہ دیتے تھے،کتنے مواقع ایسے آئے کہ جس بات سے مأمون کتراتا تھا اور پسند نہیں کرتا تھا،امام علیہ السلام بلا جھجک فرمادیتے تھے جس سے مأمون کی امام علیہ السلام کے بارے میں موجود اندرونی نفرت کے شعلے بھڑک اُٹھتے تھے۔
آخر کار جب مأمون نے امام علیہ السلام کے خلاف اپنے انواع و اقسام کے حیلوں اور سازشوں کے جالوں کو ناکام دیکھا تو مخفیانہ طور پر غریب الغرباء امام رضا علیہ السلام کو مسموم کردیا‘‘۔
’’اباصلت‘‘جو خود امام علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور حضرت کی تدفین کے مراسم میں بھی شریک تھے،روایت کرتے ہیں:مرو سے بغداد کی طرف واپس جاتے ہوئے راستے میں طُوس کے مقام پر مأمون نے حضرت امام علیہ السلام کو انگور کے ذریعے مسموم کر کے شہید کردیا،حضرتؑ کا پیکر مطہر اُسی بقعے میں جہاں ہارون مدفون تھا،ہارون کی قبر کے ساتھ(سرہانے کی جانب)دفن کردیا گیا۔
غریب الغرباء حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کا یہ دلسوز واقعہ ماہ صفر کے آخری دن ۲۰۳ ھ۔ اور بعض روایات کے مطابق 17صفر یا 23ذیقعد کو پیش آیا۔ شہادت کے وقت امام علیہ السلام ۵۵ برس کے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.