14 جولائی فرانس کا قومی دن ۔ ظلم واستبداد کےمنحوس نشان باستیل کے جیل خانے کے انہدام کی یادگار

ولایت نیوز شیئر کریں

تحریر: عبیدۃ الزہرا موسوی ایڈووکیٹ

14 جولائی فرانس کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ انقلاب فرانس کے دوران اس دن  14 جولائی 1789ء  کو اہل پیرس نے ظلم واستبداد کے منحوس نشان باستیل کے جیل خانے کو منہدم کردیا تھا ۔ یہ دن بادشاہت کے خاتمے اور انقلاب کی علامت بن گیا۔ 14 جولائی کی صبح پیرس میں شانزے لیزے پر صدر فرانس کی موجودگی میں یورپ کی قدیم ترین اور عظیم ترین فوجی پریڈ ہوتی ہے، جس میں فرانس کے دیگر عہدیدار اور غیر ملکی مہمانان بھی شرکت کرتے ہیں۔ اس مرتبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فرانس کے  صدر  امانوئل ماکروں  ہمراہ فوجی پریڈ دیکھی ۔

انقلاب فرانس دنیا بھر عوامی آزادیوں اور استحصالی طبقے کے خلاف جدوجہد کیلئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس انقلاب نے نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا پر اثرات مرتب کئے ۔ انقلاب فرانس کوجدید تاریخ میں تمام انقلابات کی ماں قرار دیا جاتا ہے۔

انقلاب فرانس کے وقت یورپ کے اس اہم ملک کی یہ حالت تھی کہ  معاشرتی نظام طبقاتی تقسیم کا شکار ہوچکا تھا ۔آبادی مذہبی طبقہ یعنی پادریوں ،امرا اورعوام میں بٹی ہوئی تھی ۔ ملک جب کسی بحران کا شکار ہوتا تو عوام پر نیا ٹیکس عائد کردیا جاتا۔

ملکی آمدن کا بڑا حصہ چرچ کیلئے مختص تھا چرچ کی آمدنی پادریوں کی جیبوں میں چلی جاتی تھی ۔ ہر شہری اپنی آمدن میں سے  دس فیصد پادری ٹیکس  دینے مجبور تھا دیگر ٹیکس اس کے علاوہ تھے ۔فرانس میں امر ااورجاگیر دار خاندانوں کی تعداد بیس اورتیس ہزار تھی جبکہ ڈیڑھ  لاکھ  پادری تھے ۔ فرانس ایک زرعی ملک تھا اڑھائی کروڑ  آبادی میں چار پانچ لاکھ لوگ مراعات یافتہ تھے ۔گویا چارلاکھ لوگ اڑھائی کروڑ لوگوں کی کمائی کھاتے تھے ۔ان دنوں فرانس میں ایک قول بہت مشہور تھا:”امرا جنگ کرتے ہیں ۔پادری دعامانگتے ہیں جبکہ عوام ان کا مالی بوجھ برداشت کرتے ہیں۔” کسانوں کی کمائی ٹیکسوں کی نذرہوجاتی تھی ۔کسان جاگیرداروں کے رحم وکرم پرتھے ۔وہ جاگیر داروں کی اجازت کےبغیر اپنی زمینوں کے گردباڑھ نہیں لگاسکتے تھے اور فصلوں کوخراب کرنے والے جنگلی جانوروں اورپرندوں کوہلاک نہیں کرسکتے تھے۔ عوام جاگیرداروں اور مذہبی طبقہ کے ظلم کے نیچے بری طرح پس رہے تھے ۔

اٹھارویں صدی کے اواخر میں استحصال اور جبر سے لبریز ملک میں امریکی جنگ آزادی میں امریکا کی مدد و اعانت  کرنے سے حکومت فرانس کا اپنا خزانہ خالی ہوگیا تھا۔  بادشاہ فرانس لوئی شانز دہم (Lui-XIV) اور اس کی حکومت سرکاری خزانے کے دیوالیہ پن کو دور کرنے سے قاصر رہی۔ بلکہ جنگ آزادی امریکا نے فرانس کی مالی حالت اور بھی ابتر کردی ۔ اس جنگ کا ایک اور اثر یہ بھی ہوا کہ امریکا سے واپس آئے ہوئے فرانسیسی سپاہیوں نے جمہوریت ، مساوات وغیرہ کے نظریات سے دیہی طبقے کو روشناس کرایا۔ شہری طبقہ روسو اور والیٹر جیسے ادیبوں اور مفکروں کی بدولت عوام میں بیداری کی لہر پیدا ہو چکی تھی ۔

اسی اثنا میں 14 جولائی 1789ء کا وہ واقعہ بھی پیش آیا جس میں اہل پیرس نے باستیل کے جیل خانے کو منہدم کردیا۔عوام نے  گورنر کو قتل کردیا اور قید خانے کی تاریک کوٹھڑیوں میں جو سات قیدی بند تھے، انہیں رہائی دلادی۔ دراصل عوام سامان جنگ کی تلاش میں تھے، لیکن یہ مقصد بھی ان کے پیش نظر تھا کہ اس پرانے قلعے پر قبضہ جمالیں، جو قید خانے کی صورت میں بن گیا تھا۔

انہدام باستیل سے پیرس کا باثروت طبقہ ڈر گیا اور اس نے بادشاہ سے اجازت لیے بغیر اپنی حکومت قائم کر لی۔ ان کی حکومت کے قیام کی خبر جب دیہی طبقے کے کانوں میں پڑی اور انھیں‌ یہ بھی معلوم ہوا کہ باستیل کو منہدم کر دیا گیا ہے۔ تو ان کےدلوں سے قانون کا احترام اٹھ گیا۔

مئی 1789 کو شروع ہونے والی عوامی تحریک کے دوران  وہ بھی وقت آیا کہ عوام نے شاہی محل پر حملہ کردیا۔ اور بادشاہ اور ملکہ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ بادشاہ اور ملکہ کو پھر قید کر لیاگیا۔ 21 جنوری 1793ء کو شاہ فرانس کو سزائے موت دے دی گئی۔ 16 اکتوبر 1793ء کو ملکہ فرانس کو بھی عوامی عدالتی کارروائی کے بعد موت کی سزا دےدی گئی۔ 10 نومبر 1793ء کو مذہبی عبادات عبادت کے خلاف قانون پاس ہوا۔ دریں اثنا فرانس میں کسی کی گردن محفوظ نہ تھی۔گلی گلی عدالتیں لگ چکی تھیں عوام جاگیرداروں کو سزائیں سنا کر خود ہی انہیں انجام پہنچا رہے تھے ۔ 1793۔ 1794 کے درمیان ہزاروں افراد کوموت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 8 جون 1795ء کو ولی عہد فرانس کو بھی قتل کردیا گیا۔ آخر  نپولین بونا پارٹ برسر اقتدار آیا ۔

فرانس کے انقلاب میں ہر ملک اور علاقے کے عوام کیلئے ایک واضح سبق موجود ہے کہ جب عوام پر ظلم کی انتہا کردی جائے اور ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے تو کوئی طاقت جبر کے ردعمل میں اٹھنے والے عوامی سیلاب کا راستہ نہیں روک سکتا۔ اور جب ایسے سیلاب ۤآجائیں توپھر ظالموں کے محلات کے ساتھ بہت کچھ اور بھی بہا لے جاتے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.