حلیف القرآن حضرت زید بن علي ابن الحسین ؑ ۔قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی
تحریر: آغا سید حامد علی شاہ موسوی النجفی
سرپرست اعلی سپریم شیعہ علماء بورڈ و سربراہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ
باسمہ تعالیٰ
دین و شریعت ، رشدو ہدایت کی ذمہ داری پروردگار عالم پر ہے حضرت انسان کو راہ دکھانے کا فرض اس نے اپنے ذمہ لیا ہے اور اسی ذمہ داری کی ادائیگی تھی کہ راہ ہدایت پر چلنے والے بعد میں تخلیق ہوئے اور راہنما و رہبر پہلے تخلیق ہوئے تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ راستہ بتانے والا کوئی نہ تھا چنانچہ اس فریضہ ہدایت کو ہر دور میں ادا کیا گیااللہ تبارک تعالیٰ نے کوئی زمانہ کوئی دور کوئی خطہ کوئی علاقہ ایسا نہیں چھوڑا جہاں اس نے اپنی ذمہ دار نہ نبھائی ہو اور رہنما کا انتظام نہ کیا ہو انہی رہنماؤں میں سے ایک ہستی حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ہیں جنکی عزت و حرمت دنیا پر واضح و عیاں ہے آپ ؑ کے گیارہ فرزند تھے ان میں سے ایک محترم و مکرم ہستی زید بن علی ابن الحسین بن علی ابن ابیطالب ؑ شہید ہیں سادات زیدی آپ کی اولاد ہیں جبکہ زیدیہ فرقہ آپ کی طرف منسوب ہے یمن میں حوثی جو اپنے حقوق کیلئے نبرد آزما ہیں آپ ہی کے پیروکار کہلاتے ہیں آپکی ولادت با سعادت مدینہ منورہ میں بناء پر روایت مختلفہ ۷۵، ۷۸، ۸۰ہجری بیان کی گئی ہے اور آپکی شہادت کے بارے میں بھی مختلف اقوال ہیں ۱،۲،۳ صفر بمطابق ۱۲۰، ۱۲۱، ۱۲۲ ہجری میں ہوئی آپ ؑ کی والدہ گرامی کا اسم شریف حوریہ ،حوراء ، جید ،جیدا ء ہے جنہیں حضرت مختار بن ابی عبیدہ ثقفی ؓ نے (جنکی قبر اطہر مسجد کوفہ حضرت مسلم بن عقیل ؑ کے پہلو میں ہے ) نے حضرت امام زین العابدین ؑ کو ہدیتاً پیش کیا ۔
آپؑ کا مشہور القاب حلیف القرآن، اسطوانۃ المسجد، زید الازیاد، شہید، عالم محمد و آل محمد ؑ اور فقیہ اہلبیت ؑ ہیں ابو الجارودؓ کہتا ہے میں جب مدینہ منورہ آیا تو جب بھی میں زیدؑ کی بارے میں دریافت کرتا تو مجھے کہا جاتا وہ ہے حلیف القرآن (قرآن کا ساتھی) اور وہ ہے اسطوانۃ المسجد ( مسجد کا ستون)آپ ؑ پندرہ سال تک اپنے والد امام زین العابدین ؑ کے زیر تربیت رہے اور ۹۵ ہجری میں اپنے بابا کی شہادت کے بعد اپنے برادر حضرت امام باقر علیہ السلام کے زیر سایہ زندگی بسر کی ۔حضرت زید ؑ کا شمار مدینہ کے بزگ علماء و اکابرین میں ہوتا ہے مختلف علوم و فنون دینیہ کے ماہر تھے قراء ت علوم قرآنیہ عقائد و نظریات اور علم کلام پر مکمل دسترس حاصل تھی۔
حضرت امام ابو حنیفہؓ کا شمار آپکے ؑ شاگردوں میں ہوتا ہے امام ابو حنیفہؓ فرماتے ہیں میں نے زید بن علی ابن الحسین ؑ سے زیادہ فصیح و بلیغ کسی کو نہیں پایا بنو امیہ کے خلاف حضرت زیدؑ کے قیام کی حمایت میں امام ابو حنیفہؓ کا تاریخی فتویٰ کتب تاریخ میں رقم ہے کہ خروجہ یضاھی خروج رسول اللہ یوم البدر (زید کا اسوقت کھڑا ہونا رسول اللہ کے بدر میں تشریف آوری کے مشابہ ہے)۔ شیخ مفیدؒ کہتے ہیں کہ حضرت زید بن علی ابن الحسین ؑ امام باقر ؑ کے علاوہ اپنے سب بھائیوں سے برگزیدہ تھے شجاعت سخاوت فقاہت عبادت زہد و تقویٰ پرہیز گاری انکی شخصیت کا خاصہ تھا انہوں نے اپنے جد بزرگوار امام عالی مقام امام حسین ؑ کے خون کا انتقام لینے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے کیلئے خروج کیا ہشام بن عبد الملک کی حکومت کے زمانہ میں ملک افتراق و انتشار کا شکار تھا بنی امیہ کے مظالم کے بدلے کا جذبہ تیز تر تھا چنانچہ زید فرزند امام زین العابدین ؑ نے حکومت کے خلاف جب قیام فرمایا لوگ جوق در جوق آپکی ؑ بیعت کرنے لگے اور بیان کیا جاتا ہے کہ ۵۰ ہزار کوفیوں نے آپ ؑ کے ہاتھ پر بیعت کی اور وارد ہوا ہے کہ آپ نے اپنے شاگرد رشید حضرت امام ابو حنیفہؓ کو ایک خط لکھا اور ان سے مدد طلب کی اور انہیں بنو امیہ کے خلاف جہاد کی دعوت دی حضرت ابو حنیفہؓ نے زیدؑ کیلئے مالی مدد روانہ کی اور اپنی استطاعت کے مطابق انکی معاونت کی زید ؑ نے بدھ کے روز پہلی صفر کو قیام فرمایا اور طے یہ کیا تھا کہ اس تاریخ کے بعد جہاد شروع کیا جائے گا لیکن آپکے دو با وفا ساتھیوں کی شہادت کی وجہ سے مقررہ وقت سے پہلے اعلان جہاد کر دیا کوفہ کے گورنر یوسف بن عمر کے لشکر کیساتھ نبرد آزما ہوئے جسمیں آپکو فتح حاصل ہوئی یوسف بن عمر نے شکست کھانے کے بعد تیر اندازوں کے بڑے لشکر کے ذریعہ حضرت زیدؑ کے ہمراہیوں پر رات کے وقت تیروں کی بارش کر دی جسمیں سے ایک تیر حضرت زیدؑ کو لگا جس سے آپ درجہ شہادت پر فائز ہو گئے آپکے ساتھیوں نے آپکے لاشے کو ایک جگہ پوشیدہ طور پر دفن کر دیا لیکن دشمنوں نے تلاش کر لیا اور انکی لاش کو قبر سے نکالا سر اقدس کو جدا کیا اور ہشام کے پاس اس سر کو بطور تحفہ ہدیہ بھیجا جبکہ لاش کو کوفہ میں سولی پر لٹکا دیا جو تین یا چار برس سولی پر ہی آویزاں رہی یہ مظالم کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کے آپکی لاش اطہر کو نذر آتش کر دیا گیا ۔
آپکا سر اقدس شہر موتہ اردن کے شمال میں ۲۲ کلو میٹر کے فاصلے پر قدیم شہر رومی میں واقع قصبہ ربہ جبکہ آپکے جسم اطہر کی باقیات کوفہ سے ۳۰ کلومیٹر کے فاصلے پر قصبہ الکفل میں دفن ہیں آپکا مزار شریف آج بھی مرجع خلائق ہے حافظ ابو بکر بن ابی الدنیا ؒ اپنی معروف کتاب المنامات میں رقم طراز ہیں کہ جریر بن حازمؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور ؐ کو خواب میں اس کھجور کے درخت کیساتھ ٹیک لگائے بیٹھے دیکھا جس کی شاخ پر زید بن علی ؑ کی لاش آویزاں تھی آپ ؐ رنج و غم و دکھ کیساتھ فرما رہے تھے کیا تم لوگ میری اولاد کیساتھ یہ سلوک کرتے ہو۔ شیخ صدوق ؒ کتاب امالی میں عمرو بن خالد سے روایت کرتے ہیں کہ قال زید بن علی ؑ : فی کل زمان رجل منا اہل البیت یحتج اللہ بہ علی خلقہ ، حجۃ زماننا ابن اخي جعفر بن محمد لا یضل من تبعہ و لا یھتدي من خالفہ زید ؑ کا قول ہے کہ ہر زمانے میں ہم اہل بیت ؑ میں سے ایک شخص حجت خدا ہے اور ہمارے دور کی حجت میرے بھتیجے جعفر بن محمد الصادق ؑ ہیں جو بھی انکی پیروی کرے گا کبھی گمراہ نہیں ہو گا اور جو بھی انکی مخالفت کر یگا اسے کبھی ہدایت نصیب نہیں ہو گی۔چنانچہ شہید اول اپنی کتاب القواعد مامقانی کتاب صحیح المقال حضرت آیت اللہ خوئی معجم الرجال الحدیث اور سید علی خان شیرازی ریاض السالکین میں اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت زید نے امام جعفر صادق ؑ کے حکم سے قیام فرمایا تھا۔
حضرت امام علی ابن موسیٰ رضا ؑ فرماتے ہیں کے میرے والد موسیٰ ابن جعفر الکاظم ؑ نے اپنے والد گرامی حضرت امام جعفر صادق ؑ کو فرماتے ہوئے یہ سنا کہ زید ؑ نے اپنے قیام کے سلسلے میں مجھ سے مشاورت کی میں نے ان سے کہاعم بزرگوار اگر آپ ؑ وہی شخصیت بننا چاہتے ہیں جنکے لاشے کو سولی دے کر کوفہ میں بلند مقام پر لٹکایا جائے تو یہی راہ راست ہے۔آپ کی اولاد میں سے آپ کے بیٹے یحیےٰ بن زید نے والد کی شہادت کے بعد سبزوار میں قیام کیا اور افغانستان کے شہر جوزجان میں شہید ہوئے ۔